بلاشبہ اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ دور حاضر میں پاکستانی ڈراموں کا معیار اور مقبولیت پاکستانی فلموں سے کہیں زیادہ ہے اور پڑوسی ملک سے کافی بہتر ہے مگر افسوس کہ یہ ڈرامے پاکستانی عوام کو کسی بھی قسم کا کوئی مثبت پیغام اور سبق دینے سے قاصر ہيں۔ اس کی بہت بڑی وجہ یہ ہے کہ ہمارے ڈراموں میں دکھایا جانے والا کلچر ماحول اور رہن سہن صرف 2 فیصد طبقے کی ترجمانی کرتا ہے ایسا طبقہ جو معاشرتی تمام فکروں سے آزاد نظر آتا ہے اور اس طبقہ کے بڑے مسائل صرف اور صرف عشق، محبت، دھوکہ، پیسہ، اور سب سے زیادہ شادی اور پھر دوسری شادی ہیں۔ جبکہ حقیقت میں ہماری عوام ناخواندگی، بے روزگاری، مہنگائی، لاقانونیت اور عدم تحفظ جیسے مسائل کا شکار ہے۔ مگر بدقسمتی سے ہمارے ڈرامے ان تمام مسائل کے حوالے سے کوئی سبق یا کوئی مثال بھی پیش کرتے نظر نہیں آ رہے ۔
دوسری طرف ہمیں یہ بات بھی یاد رکھنی چاہیے کہ ہمارا میڈیا اور ڈرامے ہمارے ملک میں ” trendsetter ” کی حیثیت رکھتے ہیں جس کی وجہ سے ہمارے نوجوان ڈراموں میں دکھائے جانے والے کلچر کو ” Idealise ” کرتے ہیں اور اپنی ذاتی زندگی میں اس کا عکس تلاش کرتے نظر آتے ہیں۔
ہمارے ڈراموں میں پیش کیا جانے والا لباس ہماری ثقافت کا نمونہ ہرگزنہیں ہے کیونکہ ہمارا قومی لباس شلوار قمیض اور خواتین کے لیے دوپٹہ ہمارے ڈراموں کی زینت صرف اسی صورت میں بنتا ہے جب کسی کردار کو غربت کا شکار دکھایا جا رہا ہو دوسرے لفظوں میں ہمارا قومی لباس ڈراموں میں صرف اور صرف ملازمائیں پہنی ہوئی نظر آتی ہیں۔
آج کل طلاقوں کے بڑھنے کی شرح کی کچھ ذمہ دار میڈیا اور ڈرامے بھی ہیں کیوں کہ ان ڈراموں میں انتہائی پر آسائش زندگی دکھائی جارہی ہے جس کو نوجوان اپنا نصب العین سمجھ بیٹھے ہیں اور حقیقی زندگی میں ناکامی کے بعد مایوسی کا شکار بہت جلد ہو جاتے ہیں۔
پاکستان کے کئی ڈراموں میں انتہائی منفی کرداروں کو دکھایا گیا جو خواتین پر تشدد کرتے نظر آتے ہیں اور سنگین جرائم جیسے اغوا، زنا، قتل اور خودکشی ان منفی کرداروں کا لازمی حصہ بنتا نظر آتا ہے۔ ایسے کردار جرائم پیشہ افراد میں جرم کرنے کے نت نئے طریقے متعارف کروا رہے ہیں جو مستقبل میں انتہائی سنگین حالات کا پیش خیمہ ہو سکتے ہیں۔
دور حاضر کے ڈراموں میں استعمال کی جانے والی اردو زبان اتنی غیر معیاری اور تلفظ اتنا بے جان ہے کہ ہماری قومی زبان کو ہمارے ہی ہاتھوں رسوا کیاجارہا ہے۔ ڈراموں میں پیش کیے جانے والے کرداروں کے درمیان باہمی رشتوں کا تقدس اور عزت و تکریم جو ہماری ثقافت کا حصہ ہے بالکل ناپید نظر آتا ہے۔
ایک طرف تو شوبز سے منسلک طبقہ خواتین کے حقوق کا سب سے بڑا علمبردار بنتا ہے تو دوسری جانب یہ فنکار ایسے ڈراموں کا حصہ بنے نظر آتے ہیں جہاں پر خواتین کو مسلسل اذیت پہنچانا اور جائز حقوق سے بھی محروم دکھایا جا رہا ہے ۔ درحقیقت یہ ڈرامے ہمارے نظریات کو بری طرح مسخ کرنے میں کردار ادا کر رہے ہیں اور ہم یعنی کے عوام کی ذمہ داری ہے کہ اپنی جغرافیائی سرحدوں کے ساتھ ساتھ اپنی نظریاتی سرحدوں کی حفاظت کرنے کو اپنا فرض سمجھتے ہوئے ایسے ڈراموں کا بائیکاٹ کریں۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ ملک میں ایسا قانون مرتب کیا جائے جس کے تحت ٹیلی ویژن پر بامقصد اور مثبت مواد دیکھا جا سکے، حکومتی ادارے خصوصا ” pemra ” مواد کی جانچ پڑتال کا ذمہ دار ہے اور ان اداروں کو اس امر کو یقینی بنانا چاہیے کہ ٹی وی پر دکھایا جانے والا مواد غیر معیاری نہ ہو اور ہماری ثقافت اور تہذیب کا حصہ ہو ورنہ ہم اس دور جدید میں اپنے نوجوانوں کو اپنی ثقافت اور تہذیب سے آشنا کروانے میں بالکل ناکام ہو جائیں گے۔