بھارت کی جنوبی ریاست کرناٹک بھی دیگر ریاستوں کی طرح بی جے پی کی ایک ایسی لیبارٹری ہے جہاں مسلمانوں کے ساتھ ساتھ آج اقلیتیں بھی غیر محفوظ ہیں۔او ڈی پی کے ای ایس کالج کی 19سالہ طالبہ مسکان نے بلا خوف و خطر نعرئہ تکبیر ’’اللہ اکبر‘‘ بلند کرکے ہندوتوا نظریئے کی بنیاد پر برسر اقتدار آنے والے جنونی مودی کا دنیاکے سامنے بھیانک چہرہ آشکارکرتے ہوئے تاریخ میں جرات و بہادری کی عظیم مثال قائم کر دی ہے۔
ایک سیکولر کہلائے جانے والے ملک میں حجاب پہننے پرمسلح ’’جتھے‘‘ کی طرف سے طالبات کو ہراساں کرنے کے بعد عالمی برادری ہی سراپا احتجاج نہیں بلکہ بھارت کے غیور عوام، اپوزیشن جماعتوں سے لے کر فلم انڈسٹری سے منسلک شخصیات بھی اس واقعہ کو مسلم دشمنی سے تعبیر کر رہی ہیں ۔اسلام کیخلاف بیانات اورسیدنارسول اکرم ﷺ کی شان اقدس میں نازیبا کلمات، قرآن پاک کی بے حرمتی کے واقعات مغرب میں تیزی سے پھیلتے ہوئے ’’ اسلامو فوبیا ‘‘ میں اضافے کے ہی عکاس ہیں، مقدس مقامات میںعبادت پر پابندی لگا کر مسلم خواتین کو اپنی پسند کا لباس پہننے کے حق سے انکار کیا جانا بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے ۔ ’’اسلامو فوبیا‘‘ کی سب سے خوفناک اور بھیانک شکل اسرائیل اور بھارت ہے جہاں دہشت گردی کو اسلام سے جوڑکرانتہا پسندوں کے ہاتھوں مسلمانوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔
مقبوضہ علاقوں کی آبادی کا تناسب بدلنے کے لئے اجتماعی سزائیں دے کر گائوں اور مضافاتی علاقے تباہ کئے جارہے ہیں۔ ’’را‘‘ اور ’’موساد‘‘ کی جانب سے پھیلائے گئے نفرت انگیز نظریات اور امتیازی قوانین نے کروڑ وں مسلمانوں کیخلاف خوف و تشدد کی ایک لہر پیدا کر رکھی ہے۔ آر ایس ایس اور راشٹریہ سیوک جیسی ہندو انتہاء پسند تنظیموں نے ایک منظم منصوبہ بندی کے تحت مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں پر عرصہ حیات تنگ کیا ہوا ہے۔ہندوتوا اور آر ایس ایس کی سوچ کی حامل بی جے پی سرکار کشمیر کی خصوصی حیثیت مٹانے کیلئے مقبوضہ جموں و کشمیر میں آبادیاتی تناسب تبدیل کرنے کے درپے ہے۔ 1948ء میں مقبوضہ وادی پر قائم کیا گیا فوجی تسلط برقرار رکھنے کیلئے جدوجہد آزادی سے وابستہ کشمیریوں کی آواز دبانے کیلئے کوئی بھی ہتھکنڈہ استعمال کرنے سے کبھی گریز نہیں کیاگیا۔ 15اگست2020ء کو مقبوضہ کشمیر کو بھارت کا حصہ قرار دینا بھی اس کے اسی ایجنڈے کا حصہ ہے۔
دنیا بھر کی طرح فلسطین،کشمیر اور بھارت میں ’’ اسلامو فوبیا ‘‘ کی لہرخوفناک صورت اختیار کرتی جا رہی ہے۔بھارت میں اقلیتوں بشمول سکھوں کی زندگیاں بھی محفوظ نہیں، ’’بنیئے‘‘ کا اصل ایجنڈااکھنڈ بھارت کی صورت میں اس کے توسیع پسندانہ عزائم کی تکمیل کا ہے جس کے تحت وہ برصغیر میں مسلم حکمرانوں کے ہاتھوں اپنی ہزار سالہ غلامی کا بدلہ لینا چاہتا ہے۔بین الاقوامی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل نے اپنی جامع رپورٹ بعنوان ’’ Choice and Prejudice:Discrimination against Muslims in Europe ‘‘ میں یہ انکشاف بھی کیا ہے کہ مسلمانوں کے خلاف تعصبات کو ختم کرنے کے بجائے اکثر یہ دیکھنے میں آرہا ہے کہ اسلام اور مسلم مخالف عناصر کی سیاسی جماعتیں اور حکام ناز برداری کرتے ہیں تاکہ ان کے ووٹ حاصل کر سکیں، منفی شبیہہ سازی اور تعصبات کی وجہ سے مسلمانوں کے خلاف امتیازات میں اضافہ ہو رہا ہے۔ اسلام کے خلاف نفرت مہذب اور جمہوری ہونے کے دعوئوں کی نفی ہے جس کا تدارک وقت کا تقاضا ہے لہٰذا اس کے لئے یورپی ریاستوں کو بھی مسلمانوں کو یکساں احترام دینے کی تفہیم ہونی چاہئے جنہوں نے بوسنیا سے عراق تک بڑی تعداد میں اپنے عوام کو ہلاک ہوتے ہوئے بھی دیکھا ہے ۔
امریکہ اوریورپ میں نہتے مسلمانوں پر حملے اور توہین آمیز خاکوں کی اشاعت ،نیوزی لینڈ اور دیگر ممالک کی مساجد میں ہونے والی شہادتیں، اونٹاریو ’’کینیڈا‘‘میں مسلم خاندان کوگاڑی تلے کچلنے،برما میں روہنگیائی مسلمانوں کو نذر آتش کرنے ،یہودی اور ہندو بستیوں کی تعمیر کیلئے فلسطینیوں اور کشمیر یوں کی نسل کشی کے ہونے والے واقعات سے اس امر کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اس تشویشناک رجحان نے معاشرے کو کتنی تیزی کے ساتھ منقسم کر کے رکھ دیا ہے۔بھارت نے کشمیر جبکہ اسرائیل نے فلسطین میں قابض ا فواج کے ذریعے خوف کی ایک لہرپیداکر رکھی ہے تاکہ اپنے توسیع پسندانہ عزائم کی تکمیل ہو سکے ۔ ریاست جموں و کشمیر پر’’بنیئے‘‘ اور فلسطین پر ’’صہیونیوں‘‘کا غیرقانونی تسلط مسلم دشمن توسیع پسندانہ عزائم کا ہی عکاس ہے۔اس میں بھی کوئی دو رائے نہیں ہیں کہ خطے میں پائیدار امن کا دارومدار جموں و کشمیر اور فلسطین کے مسئلہ کا اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی متعلقہ قراردادوں کے مطابق حل ہونے میں ہی ہے لیکن ستم ظریفی یہ ہے کہ اسرائیل اور بھارت نے انہیں پائوں تلے روندرکھا ہے۔
یاد رہے کہ 20ویں صدی کے اوائل میں فلسطین کی جغرافیائی اہمیت کے پیش نظر اسے اپنے قبضہ میں کرنے کاجو پروگرام ترتیب دیا گیاتھاعالمی طاقتوں کی سرپرستی میں اس وقت یہ سازش عملی شکل اختیار کر گئی جب دنیا کے نقشے پر مسلمانوں کے قلب میں واقع اسرائیل نامی ناجائز صہیونی ریاست کا اعلان 15مئی 1948ء کو کیا گیا۔ تسلط و طاقت کے فلسفہ پر قائم اس ناجائز ریاست کے ساتھ ہی ظلم و جور اورسفاکیت و بربریت کا سلسلہ ہر آنے والے دن کے ساتھ دراز تر ہوتا گیا۔ بھارت ،فلسطین،کشمیراور خطے کے دیگر ممالک میں مسلمانوں کا جس طرح قتل عام کیا گیا اور اب کیاجا رہا ہے اس پر عالمی برادری کی مجرمانہ خاموش لمحہ فکریہ سے کم نہیں ہے۔
توسیع پسند و تسلط و طاقت کے نشہ میں مدہوش اسرائیل نے 1967ء میں تمام فلسطین پر قبضہ کرکے مقامی باشندوں کو بے دخل کر دیا تھا یوں اس سرزمین کے اصل وارث لاکھوں کی تعداد میں اردن، لبنان اور شام میں پناہ لینے پر مجبور ہوئے مگر سامراجی اور استعماری ہتھکنڈوں نے انہیں یہاں سے بھی نکالنے کی سازش کی بالکل ویسے ہی اب مودی نے اپنے ہندوتوا نظریے کو فروغ دینے کیلئے بھارت اور کشمیر میں مسلمانوں کیخلاف خوفناک مہم چلا رکھی ہے۔ وزیراعظم پاکستان عمران خان نے حال ہی میں علاقائی اور عالمی امن کو لاحق خطرات کی نشاندہی کرتے ہوئے عالمی برادری سے پاکستان اور بھارت کے درمیان ایک نئی جنگ روکنے کے اقدامات اٹھانے کا جواشارہ کیاہے اس پر سنجیدگی سے غور کرکے فوری مئوثر اقدامات اٹھانے چاہئیں۔مسلمانوں پر شدت پسندی کا ملبہ ڈالنے والوں کو حقیقت پسندی سے کام لیتے ہوئے اپنی سوچ بدلنا ہو گی بصورت دیگر انتہاء پسند وں نے خطے میں صہیونی اور ہندو جنونیت کی جو آگ بھڑکا رکھی ہے وہ بالآخر پوری دنیا کی تباہی پرہی منتج ہوگی۔