جعلی دانشوری

ہرآدمی کی خواہش ہوتی ہے کہ لوگ اسے پسند کریں، ہر کوئی اپنی ذہنی سطح ، معیار و ذوق کے حساب سے خودکو پیش کرتا ہے ۔ اپنی ذہنی و علمی سطح، معیار اور ذوق کے لحاظ سے افراد ایک دوسرے کو پسند یا پھرمسترد کرتے ہیں۔ پسند اوراسترداد، دونوں جس طرح ایک دوسرے کے متضاد ہیں بالکل اسی طرح دانش وری اور بے وقوفی بھی ایک دوسرے کی مقابل صفت ہے۔ جب تک لب کشائی نہ ہو دانش ور اور بے وقوف دونوں یکساں نظر آتے ہیں۔

آدمی خواہ دانش ور ہو یا بے وقوف خود کو ایک سنجیدہ اور ذہین شخص کے طور پر پیش کرنا چاہتا ہے۔خاص طور پر آج کی مسابقتی دنیا میں کوئی بھی شخص اپنے آپ کو گونگا یا بے وقوف کہلانا ہرگزپسند نہیں کرئے گا۔مادی فوائد کے لیے یا پھرتعلق و رشتہ پیدا کرنے کے لیے نااہل افراد کا خود کو احمقانہ طورپر قابل بنا کر پیش کرنا تو کسی حد تک سمجھ میں آتا ہے لیکن تعلیم یافتہ اور بااثر افراد بھی آج کل ایسے بونگے پن سے خالی نظر نہیں آتےاب تو دانشوروں کی محفلوں میں بھی بونگے پن کے ہوشربا جلو ے آئے دن دیکھنے کو مل رہے ہیں ۔

یہ ایک خوش آئند بات ہے کہ بونگے بھی اب اپنی ذہنی صلاحیتوں کو بڑھانے اور اپنے علم میں اضافے کے لیے سخت محنت کرتے نظرآرہے ہیں۔ پی ایچ ڈیز کی بڑھتی ہوئی شرح سے اس بات کا آپ بخوبی اندازہ لگا سکتے ہیں۔بجا بالکل بجا، ہرایک پی ایچ ڈی بونگا نہیں ہوتا لیکن یہ بھی سچ ہے کہ یہ صف بونگوں سے بالکل خالی بھی نہیں ہے۔پی ایچ ڈی تو کیا زندگی کے ہر شعبہ میںاب بونگے پن کا جادو سر چڑھ کر بول رہا ہے۔ احمق پن کو یقینا علم اور محنت سے دور اور دانشمندی کو پروان چڑھایا جاسکتا ہے۔ لیکن جو تن آسانی سے کام لیتے ہوئے دانش وروں کی صف میںخود کو شامل کرنا چاہتے ہیں ان میں احمق پن آن بان اور شان سے قائم و دائم رہتا ہے ۔ اس کے علاوہ بعض ایسے افراد بھی ہیں جو اپنی ذہنی صلاحیتوں کو بڑھانے اور اپنے علم میں اضافے کے لیے سخت محنت کرتے ہیں۔تاہم ایسا کرتے وقت کئی ایک اصل مقصد سے بھٹک بھی جاتے ہیں۔ایسے افرادچند موضوعات پرعبور و گہرا علم پیداکرنے کے بجائے انھیں سطحی انداز میں سمجھنے اور حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ بونگا پن یہیں سے جنم لیتا ہے۔

کیا اہل کیا نااہل،اب تو جو بھی اونچے مقام و مرتبہ پر جیسے تیسے پہنچ گیا وہ دانش ور بن گیا، مقام و مرتبہ اوردانش وری سکھانے کے نہ تواب اسکول رہے نہ کالج اور نہ یونیورسٹیز۔ آج کل یہ سب بعض اعلیٰ منصب وعہدوں پر فائز افراد کے آگے پیچھے رہنے والی مصاحبوں کی ٹولیوں کی کرشمہ سازیاں ہیں کہ وہ اس اعتماد سے ان بونگوں کی دانش وری اور فراست کی داستانیں بیان کرتے ہیں کہ انھیں یقین ہوجاتا ہے کہ وہ ایک دانش ور ہیں۔اب شروع ہوتے ہیں اعتماد سے بھرے بونگے پن کے مظاہرے۔ جاہل تو کجا علم والے بھی اپنے مفادات حاصلہ کے لیے اونچے رتبوں پر فائز نالائق افراد کے ہر بونگے پن کو کمال ثابت کرنے میں اب قطعی عار محسوس نہیں کررہے ہیں۔ اعلیٰ مرتبت حضرات کے بونگے پن کی بات چلی ہے تو مناسب لگتا ہے کہ آپ کو ایک واقعہ یاد دلادوں۔ ایک وزیر کو پریشان دیکھ کر اس کے چپراسی نے پوچھا ”حضور کچھ پریشان نظرآرہے ہیں“۔ ”مزاج دشمناں تو ٹھیک ہے؟ ”اگر کوئی خدمت میرے لائق ہو تو عرض کیجیے گا۔“ ہاں! کچھ مسئلہ تو ہے“۔ وزیر صاحب نے عرض کیا ”خیرجانے دو یہ تمہارے بس کی بات نہیں ہے“۔ چپراسی نے بڑے ادب سے کہا ”حضور پچیس سال سے وزراءکی دربانی کر رہاہوں اتنا تجربہ تو ہے کہ دوایک مسئلوں کو تو چٹکی بجاکر حل کرسکتا ہوں“۔ تب وزیر نے کہا ”ایک ٹھیکیدار چند دن قبل خدمت خاص کا وعدہ کرتے ہوئے ٹھیکے کی منظوری لے کر چلتا بنا ۔ ہفتہ دس دن ہوگئے، وعدہ وفا نہ ہوتا دیکھ کرمیں نے اس کی فائل منگا کر اس پر Not approved لکھ دیا۔ ٹھیکدار کو معلوم ہوا تو وہ دوڑا دوڑا آیا۔ اپنا وعدہ پورا کرنا چاہتاہے۔ اب میں کیا کرو؟ “۔چپراسی نے کہا حضور اس میں اتنا پریشان ہونے کی کیا بات ہے ۔ فائل منگائیے Not کی t کے آگے e لگا کر اسے Note کردیجیے Not approved، Note approved بن جائے گا۔ بونگوں کی رہبری کرنے والے ایسے چپراسی اب کثرت سے نظرآرہے ہیں۔ جہاں چپراسی کی نظر ہٹی بااعتماد بونگے پن کے مظاہرے دیکھتے جائیے اور چاہے توافسوس کیجیے یا پھر لُطف لیجیے۔

آج کل حکومت،اقتدار،ملازمت اور علم وادب کی غلام گردشوں میں ایسے لوگوں کا پایا جانا کوئی حیرت کی بات نہیں ہے ۔ بلاشبہ قیادت ، سیادت اور رہبری و رہنمائی دانشوروں کے کام ہیں اور یقینایہ ان ہی کو انجام دینے چاہیے ۔ لیکن یہ تب ممکن ہے جب ہرآدمی کو اس بات کا علم ہوجائے کہ ہر کام اس کے بس کا نہیں ۔کسی بات کا نہ جاننا آج کے آدمی کے لیے ایک ناقابل برداشت صدمہ ہے،اپنی لاعلمی کو چھپانے وہ ہر قسم کے ہتھکنڈے استعمال کرتا ہے تاکہ اپنے آپ کو ذہین اور سنجیدہ ثابت کرسکے، زندگی کے ہر محاذ پر ایسے لوگ درجنوں نہیں ، سینکڑوں نہیں بلکہ ہزاروں میں مل جاتے ہیں، جاہلوں سے ٹکرانا خود عقل اور دانش مندی کی توہین ہے، عقل مندوں کازندگی، اقتدار اوررہبری یا کسی بھی محاذ پربونگوں سےسامنے ہوتا ہے تو وہ ان سے الجھنے کے بجائے کمال مروت سے ان سے اعراض کرلیتے ہیں۔ قرآن کریم اس سلسلے میں ہماری رہبری کرتا ہے ”اور جب ان سے بے سمجھ لوگ بات کریں تو کہتے ہیں سلام ہے۔“(سورہ فرقان آیت 63)۔ برطانیہ کے وزیر اعظم ونسٹن چرچل اپنی انتخابی مہم کے دوران ایک ایسی تنگ گلی سے گزررہے تھے جس سے ایک وقت میں صرف ایک آدمی گزر سکتا تھا، مخالف سمت سے ایک حزب اختلاف کا لیڈر آگیا آمنے سامنے آکر دونوں ایک دوسرے کو گھورنے لگے مخالف لیڈر نے کہا ”میں گدھوں کوراستہ نہیں دیتا“۔ ”لیکن میں دے دیا کرتا ہوں۔“ ونسٹن چرچل یہ کہہ کر ایک جانب ہٹ گئے۔ ونسٹن چرچل نے کمال شرافت سے بغیر الجھے بونگے پن کا جواب دانش مندی سے دے دیا۔ گدھوں کو راستہ نہ دینے کی بات کرنے والے خودساختہ دانش وروں کی مثال انگریزی کی کہاوت “Jack of all trades,but master of none.” کے مصداق نظرآتی ہے۔ یہ محاورہ اسے آپ اصطلاح بھی کہہ سکتے ہیں دراصل ایک ایسے کثیرالہنر شخص پر گہرا طنزہے جو ہر شئے کا سطحی علم تو رکھتاہے لیکن اسے کسی بھی شئے پر دست رسی و گہرائی حاصل نہیں رہتی۔ ہرچیز جانتا ہوں کے زعم میں اس کی بے وقوفی اور خراب کارکردگی لوگوں کے لیے مذاق کا موضوع بن جاتی ہے۔ ”جیک“ انگریزی کا ایک معروف نام ہے جسے کسی بھی عام فرد کے لیے استعمال کیا جاتا ہے، انگریزی ادب میں اس جملے کا استعمال 14ویں صدی سے شروع ہواجس کی مثال جان گوور(John Gower)کی نظم Confessio Amantist،1390میں ملتی ہے، اردو مضمون میں انگریزی بیانیہ  ۔ براہ مہربانی اسے بونگے پن پر محمول مت کیجیے ۔ قول رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہے ، حکمت و دانش مومن کی گم شدہ میراث ہے، وہ اسے جہاں پائے حاصل کرلے۔ “(ترمذی)۔ یہ مضمون لکھنے کا مقصد ہی معاشرے میں پائے جانے والی جیکوں( جعلی دانش وروں) کی شناخت و پہچان کرانا ہے تاکہ نامعقولیت کو ختم کیاجا سکے۔ جعلی و سفلی نظریات کو جڑ سے اُکھاڑ کر دنیا کو امن وسکون اور راحت ومسرت کا گہوارہ بنایاجا سکے۔

احمق کے معنی ہیں ” جس میں بات سمجھنے کی صلاحیت کم ہو یا نہ ہو، بیوقوف، ناسمجھ (مرد یا عورت)“۔ لفظ احمق ”حمق “سے مشتق ہے ۔”حمق” کا معنی ہے بے وقوفی ۔ یہ عقل مندی کا متضاد ہے بلکہ اسے عقل کی خرابی سے بھی تعبیر کیا جاتا ہے۔ بازارکی مندی کے اظہار کے لیے عربی زبان میں ”حمقت السوق“ لفظ کا استعمال کیا جاتا ہے۔بے وقوف بھی عقلی طور پر مندی کا شکار ہوتا ہے اسی لیے اسے احمق کہا جاتاہے۔ احمقوں کی پہچان کی داناﺅں نے چھ نشانیاں بیان کی ہیں۔(1)بلاوجہ غصے میں آنا(2)غیر مناسب جگہ پر مال اُڑانا(3)بلا فائدہ باتیں کرنا(4)ہر ایرے غیرے پر اعتماد کرنا(5)راز فاش کرنا(6)دوست دشمن میں فرق نہ کرنا اور اپنے آپ کو دانشورسمجھ کرجو دل میں آئے کہہ دینا۔

ذی عقل آدمی اپنے آغاز ہی سے انجام کے بارے میں فکر مند رہتا ہے۔ انجام کی فکر مندی اسے ہمیشہ خرابیوں سے روکتی ہے۔ عقل، آدمی میں فکر و تدبر پیدا کرتی ہے۔ عقل آدمی کو شرف عطا کرتی ہے۔ عقل سے آدمی مکلف ہوتا ہے ، اس کے اندرذمہ داری کا احساس پیدا ہوتا ہے۔ عقل آدمی کو نقصان سے محفوظ رکھتی اور مذموموم قول و فعل سے بھی روکتی ہے۔ انسان کے پاس عقل سے بڑھ کر ہدایت اور بری چیزوں سے روکنے والی کوئی دوسری شئے موجود نہیں ہے۔ ” اے ایمان والو! اللہ سے ایسے ڈرو جیسے اس سے ڈرنے کا حق ہے، اور تمہیں موت صرف اسلام کی حالت میں آئے“(آل عمران 102)۔ علم سے عقل کو زندگی ملتی ہے جیسے آل عمران کی مذکورہ آیت واضح انداز میں اللہ سے اسی طرح ڈرنے کا مطالبہ کررہی ہے جیسے اس سے ڈرنے کا حق ہے۔

کسی بات کو فوراًسمجھ جانا ہی عقل مندی کی علامت ہے۔ جو آدمی اپنے پیدائش کے مقصد،زندگی اور مقصد حیات کو نہ سمجھے دراصل وہی سب سے بڑا احمق اور نادان ہے۔ علم عقل کی افزائش کے لیے ضروری ہے اور زندگی کے تجربات عقل میں نکھار پیدا کرتے ہیں۔شریعت عقل و دانش کا مجموعہ ہے اور دین، عقل کے لیے روشنی کا کام کرتا ہے۔ بے شک شریعت اور شرعی مسائل و مقاصد عقل سے ہی سمجھے جاسکتے ہیں لیکن یہ ناقابل انکار حقیقت ہے کہ عقل جب تک شریعت پر قائم رہے سیدھی رہتی ہے اور جیسے ہی شریعت سے اس کے پاﺅں ڈگمگائے وہ گمراہی کا شکار ہوجاتی ہے۔

عقل ابتدا ہوکہ انتہا وحی سے رہنمائی حاصل کیئے بغیر نہیں رہ سکتی۔عقل و ہدایت کے سارے راستے بند ہیں سوائے ان لوگوں کے جنہوں نے قرآن اوراسوہ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنی زندگیوں کو منور کیاہو۔عقل سلیم وہی ہے جو آدمی کو اپنے وحشی نفس پر قابو پانے کی ترغیب دے اورطمع و لالچ سے دور رکھے۔امیر المومنین حضرت سیدنا علی المرتضیٰ ؓ نے فرمایا ”انسان کا بنیادی فرض یہ ہے کہ اپنے نفس کو بے نیازی کی تربیت دے اور طمع کا شکار نہ ہو۔ اس کے بعد کوئی پریشانی آجائے تو صبر کو اپنا شعار بنائے اور ہر ایک سے فریاد نہ کرے کہ اس کی نگاہ میں ذلیل ہو جائے اور جب بولنے کا وقت آئے تو فکر کو زبان پر حاکم بنائے اور زبان کو نفس کا حاکم نہ بنا دے کہ جو چاہے کہنا شروع کر دے۔ “حضرت علی ؓ نے فرمایا کہ عقل مند آدمی مختصر امیدیں رکھتا ہے۔ حضرت سیدنا علی المرتضیٰؓ نے ایک مرتبہ حضرت عمر فاروقؓ سے فرمایا” اے امیر المومنین! اگر آپ کو یہ بات پسند ہے کہ کہ آپ اپنے دونوں ساتھیوں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت ابو بکر صدیقؓ سے جا ملوتو آپ اپنی امیدیں مختصر کریں اور کھانا کھائیں، لیکن پیٹ نہ بھریں اور لنگی بھی چھوٹی پہنیں، کرتے پر پیوند لگائیں اور اپنے ہاتھ سے جوتی گانٹھیں۔ اس طرح کریں گے تو ان دونوں سے جا ملیں گے۔ اللہ متقیوں کے عمل کو قبول فرماتے ہیں۔“بہ زبان علامہ اقبالؒ

اس کی اُمید یں قلیل، اس کے مقاصد جلیل اس کی ادا دل فریب، اس کی نِگہ دل نواز

نرم دمِ گفتگو، گرم دمِ جستجو رزم ہو یا بزم ہو، پاک دل و پاک باز

عقل مندی کی تعریف حضرت سفیان بن عیینہ ؒیوں بیان کرتے ہیں ”عقل مندی یہی نہیں ہے کہ اچھی بری چیز میں فرق کر لے، بلکہ عقلمند وہ ہے جو اچھائی کو پہچان کر اپنا لے، اور برائی کو دیکھ کر اس سے بچ جائے“۔ ایک سو بیس (120) سالہ آدمی سے پوچھا گیا ”عقل مندی کیا ہے؟ اس نے کہا کہ عقل مندی یہ ہے کہ ”جہالت اور خواہشات پر تمہارا حلم غالب آجائے۔“ کسی دیہاتی سے عقل کے سب سے بڑے فائدے کے متعلق پوچھا گیا تو وہ کہتا ہے ”گناہوں سے بچنا۔“ ابو حاتم عقلمندی کی درجہ بندی میں اسے سب سے اعلیٰ درجے کا عقل مند سمجھتے ہیں جو ہمیشہ اپنا محاسبہ کرتا ہے۔“جس کی عقل پختہ ہوگی ، جس میں انتہا درجہ کی سمجھداری ہوگی اور جس میں تمیز کرنے کی صلاحیت ہوگی وہ شخص یقینا اپنے رب کا مطیع ہوگا ، اسی کے ساتھ اپنا تعلق استوار رکھے گا اور عقل کے مطابق اس میں اطاعت و عبادت گزاری کا جذبہ بھی بدرجہ اتم پایا جائے گا۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں ”صرف عقل والے ہی نصیحت پکڑتے ہیں“ (آل عمران 7)۔ اس لیے کہا گیا ہے کہ وعظ نصیحت اسی شخص کو فائدہ دیتی ہیں جوعقل و حلم والا ہو اور سمجھدار و دانشور ہو۔ ابن قیم ؒ فرماتے ہیں ”تمام لوگ بچپن والی عقل رکھنے میں مساوی ہیں، ہاں وہی دانشور اور عقلمند لوگوں کے مقام پر پہنچتا ہے جو حق کو علمی، عملی، اور معرفت کے انداز سے پہچان لیتا ہے“۔ درحقیقت عقل والا وہی ہے جو ایک اللہ کی عبادت کرے کسی کو اس کا شریک نہ ٹھہرائے، خود کو شہوتوں سے محفوظ رکھے، اہل فسق وفجور ،بے عقل اور بے وقوفوں کی سطح پرکبھی خود کو نہ گرائے، جاہلوں ،گناہوں میں ملوث اور حرام کاموں کے دلدادہ افراد سے بچ کر ہمیشہ اللہ کی طرف توجہ کرے۔ اگرکوئی گناہ سرزد ہو بھی جائے تو فوری توبہ کرے۔ اللہ رب العزت کے نزدیک دراصل یہ ہی لوگ عقل والے ہیں ”جو توجہ سے بات کو سنتے ہیں پھر اچھی بات کی پیروی کرتے ہیں،یہی ہیں جنہیں اللہ نے ہدایت کی ہے اور یہی عقل والے ہیں“(سورةالزمر18)۔

جعلی دانشوری کی پہچان

جعلی دانشور بہت تیزی سے بات کرتے ہیں، بات کرتے ہوئے گھبرا جاتے ہیں اور اگر کسی برے کام کا کہا جائے تو فوری کر گزرتے ہیں، جعلی دانشواران کو ان کے مزاج کے ہلکے پن، سریع الغضب، جہالت، بے حیائی، بد گوئی، تکبر، خود پسندی، غفلت، سستی، نعمتوں کا ضیاع، کم علمی، اچھے لوگوں سے دشمنی، برے لوگوں سے دوستی، بنا تحقیق خبریں پھیلانا، ہر وقت لڑائی جھگڑامیں مشغول رہنا ، یا جھگڑے و فساد بھڑکانے کے کاموں میں لگے رہنا، بڑوں کی عزت نہ کرنا اور دوست احباب کو بھی چونا لگانا وغیرہ جیسی صفات و علامات سے بخوبی پہچانا جاسکتا ہے۔ چنانچہ جوان مذموم صفات سے خو د کو بچاتے ہوئے ، ہر شئے کی حقیقت کو پہچان کر ذی عقل افراد کے نقش قدم پر چلتے ہیں نہ صرف وہ جعلی دانشوروں کے نقصانات سے محفوظ رہ سکتے ہیں بلکہ عقل کے فیوض و برکات سے بھی مستفید ہوتےہیں۔

علم والوں کے لیے ضروری ہے کہ سطحی سوچ اورحیران و پریشان لوگوں کے پیچھے لگے رہنے سے خود کو بچائیں کیونکہ یہ بے عقل جانوروں کے کام ہیں ۔اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں”اللہ کے ہاں بدترین جانور وہ ہیں جو بہرے، گونگے اور بے عقل ہیں(انفال 22)۔امیر المومنین حضرت علی کی اپنے بیٹے حضرت حسن ؓ کو قبل از مرگ کی گئی نصیحتیں عقل کے متلاشیان کے حق میں زاد راہ کا کام کرتی ہیں۔جب ابن ملجم ملعون نے حضرت علیؓ کو جنجر مارا تو حضرت حسن ؓ آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ حضرت حسنؓ رو رہے تھے، حضرت علیؓ نے فرمایا” اے میرے بیٹے! کیوں رو رہے ہو؟ عرض کیا” میں کیوں نہ روﺅں، جبکہ آج آپ کا آخرت کا پہلا دن اور دنیا کا آخری دن ہے۔ حضرت علیؓ نے فرمایا” چار اور چار (کل آٹھ) چیزو ں کو پلے باندھ لو۔ ان آٹھ چیزوں کو تم اختیار کرو گے تو پھر تمہارا کوئی عمل تمہیں نقصان نہیں پہنچا سکے گا۔ حضرت حسنؓ نے عرض کیا” ابا جان! وہ چیزیں کیا ہیں؟ فرمایا” سب سے بڑی مالداری عقلمندی ہے، یعنی مال سے بھی زیادہ کام آنے والی چیز عقل اور سمجھ ہے اور سب سے بڑی فقیری حماقت اور بے وقوفی ہے۔ سب سے زیادہ وحشت کی چیز اور سب سے بڑی تنہائی عجب اور خود پسندی ہے اور سب سے زیادہ بڑائی اچھے اخلاق ہیں“۔ حضرت حسن ؓفرماتے ہیں ” میں نے کہا: اے اباجان! یہ چار چیزیں تو ہوگئیں، مجھے باقی چار چیزیں بھی بتا دیجیے۔ فرمایا”، بے وقوف کی دوستی سے بچنا، کیونکہ وہ فائدہ پہنچاتے پہنچاتے تمہارا نقصان کر دے گا اور جھوٹے کی دوستی سے بچنا، کیونکہ جو تم سے دور ہے، یعنی تمہارا دشمن ہے، اسے تمہارے قریب کر دے گا اور جو تمہارے قریب ہے، یعنی تمہارا دوست ہے، اسے تم سے دور کر دے گا (یا وہ دور والی چیز کو نزدیک اور نزدیک والی چیز کو دور بنائے گا اور تمہارا نقصان کر دے گا) اور کنجوس کی دوستی سے بھی بچنا، کیونکہ جب تمہیں اس کی سخت ضرورت ہو گی، وہ اس وقت تم سے دور ہو جائے گا اور بدکار کی دوستی سے بچنا، کیونکہ وہ تمہیں معمولی سی چیز کے بدلے میں بیچ دے گا۔“ (حیاة الصحابہ حصہ سوم)۔

زندگی میں آپ کاسامنا کبھی نہ کبھی، کم از کم ایک ایسے آدمی سے ضرور ہوا ہوگاجو، سب کچھ کے بارے میں کچھ تو ضرور کہنا چاہتا ہے(Something to say about everything)؟ یا دوسروں کی رائے و نقطہ نظرکو سمجھے بغیر رد کردیتاہے یا پھرہمیشہ بحث و تکرارسے خو د کو صحیح ثابت کرنے کی کوشش کرتا ہے؟ تعجب نہ کیجیے ، یقینا آپ کاسامنا ہوا ہوگا اب تو یہ سانحات روز مرہ کا معمول بن چکے ہیں۔

معاشرہ ایسے جعلی افلاطنوں سے بھرا پڑا ہے اب پڑوس میں، گلیوں میں، نکڑوں پر، بازاروں میں، دکانوں میں، اسکولوں، کالجوں ، یونیورسٹیوں، عبادت گاہوں، عدالتوں، تھانوں، اقتدار کے ایوانوں، دفتروں، علمی ، طبی ادبی، تعلیمی، رفاہی، فلاحی و صحافتی اداروں اور انجمنوں میں ہر جگہ آپ کو جعلی دانشوران( جاہل افلاطون )بغیر کسی تلاش کے مل جائیں گے۔آپ انھیں جاہل افلاطون کہہ لیجیے یا جعلی پھر دانشور(Pseudo Intellectual)یا دانشور نما جاہل، اس سے انھیں کوئی فرق نہیں پڑتا۔ اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں ہے کہ آپ کو بھی ان سے کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ یقینا ان نفوس بابرکات کی موجودگی سے آپ پر نمایاں فرق پڑے گا اس لیے ضروری ہے کہ ان کے بارے میں معلومات حاصل کی جائے کہ یہ جعلی دانشور (Pseduo Intellectuals)جعلی افلاطون آخر کیا بلا ہیں۔ جعلی دانشوری(Pseudo Intellectualism)کیا شئے ہے۔ جعلی دانشور(سوڈو انٹیلیکچوئل )کی کیا پہچان ہے۔ ان سے کس طرح بچا جاسکتا ہے۔ اس مضمون کے ذریعے آپ کی توجہ جعلی دانشوروں کی جانب مبذول کرنے کی کوشش کی گئی ہے ۔اپنے اردگرد پائے جانے والے ان دانشوروں کو پہچان کر ان سے اعراض کریں اور ان کی اصلاح کا بیڑا اٹھائیں تاکہ سماج کو صحیح خطوط پر چلایا جاسکے۔

حصہ
mm
فاروق طاہر ہندوستان کےایک معروف ادیب ،مصنف ، ماہر تعلیم اور موٹیویشنل اسپیکرکی حیثیت سے اپنی ایک منفرد شناخت رکھتے ہیں۔ایجوکیشن اینڈ ٹرینگ ،طلبہ کی رہبری، رہنمائی اور شخصیت سازی کے میدان میں موصوف کی خدمات کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔جامعہ عثمانیہ حیدرآباد کے فارغ ہیں۔ایم ایس سی،ایم فل،ایم ایڈ،ایم اے(انگلش)ایم اے ااردو ، نفسیاتی علوم میں متعدد کورسس اور ڈپلومہ کے علاوہ ایل ایل بی کی اعلی تعلیم جامعہ عثمانیہ سے حاصل کی ہے۔