ایک تنہا “ دیا ” اور طوفان ہے
پر دئیے کے لہو میں بھی وجدان ہے
اس کہانی کا بس یہ ہی عنوان ہے
اپنے گھر میں ہی محصور شیطان ہے
خوف سے دور ہے کیسی ”مسکان “ ہے
اک وفا، نور ، کیسا یہ پیمان ہے
بے حجابی سے بلکل ہی انجان ہے
رب کی تکبیر پہ کیسا ایقان ہے
لوگ کہتے ہیں باقی اذاں نہ رہی
ایک بیٹی نے دی پھر سے آذان ہے
بے خودی ، بندگی میں مچلنے لگی
ایک لڑکی نہیں پورا ایمان ہے
روح ذہنی غلامی سے آزاد ہو
پھر یہ برہان ہے پھر یہ قرآن ہے
کلمۂ حق زمیں پہ نہ باقی رہے
جو سمجھتا ہے یہ، کتنا نادان ہے
ظلم اپنی جگہ، ضبط اپنی جگہ
ایک قدرت کی اپنی بھی میزان ہے
زرد موسم سہی سبز کونپل بھی ہے
میرے انجم کو اتنا تو عرفان ہے