اگر ہم آٹھویں کلاس تک کے بچوں سے کچھ اس قسم کے سوالات کریں کہ زیارت کس صوبے میں واقع ہے؟ یا فیصل آباد کا پرانا نام کیا تھا ؟یا پھر یہ کہ آزاد کشمیر ملک ہے؟ یا صوبہ؟ تو میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ زیادہ تر جوابات سن کر آپ کے لبوں پر مسکراہٹ رینگ جاۓ گی کیوں کہ میں نے یہ تجربہ کر کے دیکھا ہے اور اسی تجربے کی بنیاد پر میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ ہم سے بہت سوں نے بینڈویگن ایفیکٹ کے بارے میں کبھی نہیں سنا ہو گا۔
بینڈ ویگن ایفیکٹ ایک congnative bias اور ایک نفسیاتی کرشمہ ہے جس میں لوگ ایسا سلوک رویہ یا عادات صرف اس لیے اپنا لیتے ہیں کے باقی سب بھی ایسا ہی کر رہے ہیں یا ایسا ہی سوچتے ہیں اس کا بہترین نمونہ ہمیں الیکشنز کے دنوں میں دیکھنے کو ملتا ہے جب ایک چھوٹی یا غیر معروف پارٹی بھی یہ دعویٰ کر دیتی ہے کہ اس دفعہ حکومت انہی کی بننے والی ہے اور لوگ ان کے اس دعویٰ کے زیر سایہ اسے ووٹ دے ڈالتے ہیں یا دوسرے لفظوں میں آپ یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ جس پارٹی کی طرف لوگ سمجھتے ہیں کہ زیادہ تعداد میں لوگ ہیں وہ بینڈ ویگن ایفیکٹ کے زیر اثر اسی پارٹی کو ووٹ دینا پسند کرتے ہیں کیونکہ زیادہ لوگ اکثریت کے ساتھ شامل ہونا چاہتے ہیں۔
بینڈ ویگن ایفیکٹ کا صحافت سے بھی چولی دامن کا ساتھ ہے اسی لیے صحافت کے طالبعلموں کو یہ پڑھایا بھی جاتا ہے اور یہ بعض اوقات خبری صحت کو بھی کافی حد تک متاثر کرتا ہے اس کی ایک تازہ مثال حال ہی میں ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی وفات سے دی جا سکتی ہے وہ ابھی ہسپتال میں داخل اور حیات تھے کہ بعض ذرائع ابلاغ کے اداروں نے ان کی موت کی جھوٹی خبر چلا دی اور بینڈ ویگن ایفیکٹ کے زیر اثر یہ خبر اتنی وائرل ہوئی کہ ڈاکٹر صاحب کو خود اپنی موت کی تر دید کرنا پڑی اشتہار بازی میں بھی بینڈ ویگن ایفیکٹ کا آزادانہ استعمال کیا جاتا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ دلفریب عمومیات کا سہارا بھی لیا جاتا ہے جیسا کہ ہماری یہ پروڈکٹ پورا پاکستان استعمال کر رہا ہے اور صرف آپ ہی وہ فرد واحد ہیں جو ابھی تک اسے استعمال نہیں کر رہے۔
سیاسی جماعتیں الیکشن کے نتائج پر اثر انداز ہونے کے ساتھ ساتھ اپنے کارکنوں یا ووٹروں کی ہمدردی حاصل کرنے کے لیے بھی اس تکنیک کا استعمال کرتی ہیں جیسا کہ ہمارا اُمیدوار سیکڑوں ووٹوں سے مخالف امیدوار پر سبقت لیے ہوۓ ہے نتائج کے اختتام پر پتا چلتا ہے کہ سبقت والا اُمیدوار خود سیکڑوں ووٹوں سے ہار چکا ہے بینڈ ویگن ایفیکٹ کو پروپیگنڈا کے ہتھیار کے طور پر بھی استعمال کیا جاتا ہے تا کہ لوگوں کی توجہ اپنے طور مبذول کروائی جا سکے۔
بینڈ ویگن ایفیکٹ کا شکار زیادہ تر کم پڑھے لکھے لوگ بنتے ہیں کیونکہ ان کی اپنی سوچ محدود اور دوسروں کے عمل کی محتاج ہوتی ہے جبکہ پڑھے لکھے لوگ اپنی خود کی آزاد سوچ کی وجہ سے اپنے بل بوتے پر قوت فیصلہ کی صلاحیت رکھتے ہیں اور اس سے کافی حد تک محفوظ رہتے ہیں ماہر پروپیگنڈا کار اس عمل کو اپنے مثبت اور منفی مقاصد کو حاصل کرنے کے لیے بھی استعمال کرتے ہیں اس لیے یہ ہماری سوچ پر منحصر ہوتا ہے کہ ہم اس عمل کا حصہ مثبت طور پر بننا چاہتے ہیں یا منفی طور پر اپنی سوچ اور مؤثر تحقیق کو بروۓ کار لا کر ہم بینڈ ویگن ایفیکٹ کے منفی اثرات سے خود کو کافی حد تک محفوظ رکھ سکتے ہیں۔