سنا ہے بہت سستا خون ہے وہاں کا،
اک بستی جسے لوگ کشمیر کہتے ہیں۔
سنا ہے جنت کی وادیاں بہتی ہیں وہاں،
اک بستی جے لوگ کشمیر کہتے ہیں۔
سنا ہے بہت سکوں کی جگہیں ہیں وہاں،
بستی جسے لوگ کشمیر کہتے ہیں۔
سنا ہے بہت خوبصورت پہاڑ ہیں وہاں،
اک بستی جسے لوگ کشمیر کہتے ہیں۔
سنا ہے بہت ظلم ہوتا ہے لوگوں پہ وہاں،
اک بستی جسے لوگ کشمیر کہتے ہیں۔
سال بعد جب یہ دن آتا ہے کرتے ہم تجھے یاد،
کہ سنی نہیں کسی نے وہاں لوگوں کی فریاد،
اک بستی جسے لوگ کشمیر کہتے ہیں۔
کسی نے نہیں دیا ان کا ساتھ،
جب ہورہا تھا وہ برباد،
اک بستی جسے لوگ کشمیر کہتے ہیں۔
سنا ہے اس کے حسن پہ فدا ہیں سب،
اک بستی جسے لوگ کشمیر کہتے ہیں۔
لیکن اس وقت تماشاء دیکھ رہے تھے سب،
جب ظالموں کے ہاتھوں کا بنا تھا وہ شکار،
اک بستی جسے لوگ کشمیر کہتے ہیں۔
ہم دونوں ہیں مسلمان،
لیکن اپنا فرض ہم نہ نبھا سکے،
اب تک ہم انہیں آزاد نہ کروا سکے،
اک بستی جسے لوگ کشمیر کہتے ہیں۔
ہمارے مسلمان بہن بھائی دے رہے ہیں اپنی جان،
اک بستی جسے لوگ کشمیر کہتے ہیں۔
لکھتے لکھتے قلم سوکھ گیا،
ان کے دکھوں کا مداوا نہ ہوا،
اک بستی جسے لوگ کشمیر کہتے ہیں۔
پر افسوس ہے کہ انعم،
آج بھی پڑی ہے سب کو اپنی فکر،
کوئی بھی نہیں سنتا ان کی فریاد،
اک بستی جسے لوگ کشمیر کہتے ہیں۔