عدل و انصاف کے بارے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد ہے کہ,”میری اُمت اس وقت تک سر سبز رہے گی جب تک اس میں تین خصلتیں باقی رہیں گی، ایک یہ کہ جب وہ بات کریں تو سچ بولیں گے، دوسرا یہ کہ جب فیصلہ کریں گے تو انصاف کو ہاتھ سے نہ جانے دیں گے، تیسرا یہ کہ جب ان سے رحم کی درخواست کی جائے گی تو کمزور پر رحم کریں گی”۔اسلام کی روشن تعلیمات کے باوجود آج کا معاشرہ عدل و انصاف کا دامن چھوڑ کر جائز ناجائز خواہشات کی تکمیل میں کوشاں ہے اوریہ صورتحال معاشرے کے زوال کا باعث بن رہی ہے، مظلوم لوگ انصاف کے لئے در بدر پھر رہے ہیں ، جبکہ عدالتوں میں مقدمات کے انبار ہیں۔
اس گھمبیر صورتحال میں معاشرے کی پہلی ضرورت سستے اور فوری انصاف کی فراہمی ہے ، کیونکہ انصاف کی فراہمی میں سستی یا تاخیر کی وجہ سے ہی مسائل جنم لیتے ہیں اور افراد عدل کے ایوانوں سے مایوس ہوکر جدل کا راستہ اختیار کرتے ہیں جوکہ ریاست کے لئے کسی طور بھی موزوں نہیں۔ابھی کچھ دن پہلے کی بات ہے ہائی کورٹ کے قریب ایک بزرگ فائلوں کا انبار اٹھائے دکھائی دیئے ۔ میرے استفسار پر انہوں نے بتایا تھا کہ ان کی والدہ کی ملکیتی جائیداد پر بااثر افراد نے قبضہ کررکھا ہے ، مقدمے کا فیصلہ سیشن عدالت سے ہمارے حق میں ہوچکا ہے مگر مخالف فریق نے اس فیصلے کے خلاف ہائی کورٹ ملتان بنچ میں اپیل دائر کررکھی ہے جوکہ گزشتہ پانچ سال سے زیر سماعت ہے۔عرصہ دراز سے انصاف کیلئے آرہا ہوں فیصلہ نہیں ہورہا، مخالفین بدستور ہماری جائیداد پر قابض ہیں ،جبکہ اس دوران میری والدہ بھی وفات پاچکی اور میں نہ صرف جمع پونجی بلکہ روزگار سے بھی محروم ہوچکا ہوں۔
آج ملک بھر کی سول ، سیشن کورٹس اور ہائیکورٹس میں سائلوں کا ہجوم نظر آتا ہے ۔ اکثر دیکھا گیا ہے کہ دیوانی کیسوں میں لوگوں کی عمر کا بڑا حصہ عدالتوں میں دھکے کھاتے کھاتے ہی گزر جاتا ہے اور کئی تو اس دنیا سے بھی گزر جاتے ہیں۔ اگرچہ وقت کے ساتھ ساتھ آبادی میں بھی اضافہ ہوا ہے ، اور اس کے ساتھ ہی ملک بھر میں جرائم کی شرح بھی بڑھی ہے۔ لیکن آج ہماری عدالتوں میں ججوں کی تعداد کم ہے اور مقدمات کی تعداد بہت زیادہ ۔ نومبر2021ء میں سینیٹ میں پیش کیے گئے اعداد و شمار کے مطابق پاکستان کی عدالتوں میں اس وقت 21 لاکھ 59ہزار 655 مقدمات زیر التوا ہیں اور ملک بھرکی ہائی کورٹس اور ڈسٹرکٹ کورٹس میں ججز کی ایک ہزار 48اسامیاں تعیناتیوں کی منتظر ہیں۔
ججز کی تعداد کم ہونے کی وجہ سے لوگ انصاف کیلئے عدالتوں کے چکر لگاتے لگاتے عمر گنوا دیتے ہیں۔ اگر عدالتوں میں ججوں کی تعداد بڑھا دی جائے اور اس بات کا بھی خیال رکھا جائے کہ عدالت میں انصاف کیلئے آنے والوں کو جلد انصاف مل جائے گا تو اس کے یقینا اچھے نتائج برآمد ہونگے ۔اور جب کسی بھی جرم کرنے والے کو یہ معلوم ہوگا کہ اسے فوری طورپر سزا ہوگی تو وہ جرم کرنے سے قبل ہزار بار سوچے گا۔وکلاء صاحبان تاریخیں لینے کیلئے بھی کئی طرح کے حربے اختیار کرتے ہیں۔ کبھی کسی دوسری عدالت میں پیشی یا کبھی بیرون شہر جانے یا بیماری کا عذر بنا کر تاریخ پر تاریخ لے لی جاتی ہے، اس سے انصاف کی فراہمی میں یقینا تاخیر ہوتی ہے ۔ لہٰذا ضروری ہے کہ ایسے اقدامات کئے جائیں جس سے سائل کو انصاف جلد مل سکے اور عدلیہ کا وقار بلند ہو۔
اگر عدلیہ عام کیسوں اور سنگین کیسوں کی سماعت کا دورانیہ مختص کر دے تو اس سے انصاف جلد ہوتا نظر آئے گا۔قانون کی اہمیت و افادیت سے کوئی باشعور شخص انکار نہیں کرسکتا۔ قوانین معاشرے اور ریاست کے درمیان تعلق کو مستحکم اور پائیدار بناتے ہیں جبکہ لاقانونیت کی وجہ سے معاشرہ برباد ہوجاتا ہے ۔ انسان کی اصلاح اور معاشرے کی بقاء قانون کے عملی نفاذ کے بغیر ناممکن ہے کیونکہ قانون کی حکمرانی کسی معاشرے کی بقاء کی اکائی ہے ۔ اگر پاکستان کے نظام کو ٹھیک کرنا ہے تو نظام عدل کو درست سمت میں لانا ہو گا۔ ان سطور میں ہم نئے چیف جسٹس آف پاکستان سے اپیل کریں گے کہ وہ نظام انصاف میں اصلاحات لاکر ایسے اقدام کریں جس سے سستے اور فوری انصاف کا حصول ممکن ہو سکے ۔