رونے کے مقام پر شادیانے بجانے والی قوم

دنیا میں ایسی قوم کہیں نہیں جس کو خوشی ملے تو وہ شادیانے نہ بجائے۔ قومیں ہی کیا، انسان تنہا ہو، ایک خاندان کی طرح رہتا ہو، معاشرہ ہو، زبان، رنگ، نسل یا علاقے کی بنیاد پر ایک دوسرے کا ہم خیال ہو تو ہر قسم کی کامیابی پر اپنی خوشی کا اظہار ضرور کرتا ہے۔ بے شک خوشی کے اظہار کے طور طریق اور انداز ہر طبقے، جماعت، گروہ اور قوم کے ایک دوسرے سے بہت مختلف ہوتے ہیں لیکن فطرت سے کوئی بھی بغاوت نہیں کر سکتا اور دکھ سکھ کا مظاہرہ بہر صورت ضرور کیا جاتا ہے۔ خوشی کس چیز کا نام ہے اور غم کسے کہتے ہیں، اس کا انحصار ہر فرد، گروہ اور قوم کے اپنے مزاج سے ہوتا ہے۔ یہ ضروری نہیں کہ جس بات پر کوئی قوم تہوار مناتی ہو وہ کسی دوسری قوم کیلئے اتنی ہی پسندیدہ ہو اور یہ بھی ضروری نہیں کہ وہ کسی کی خوشی میں دل و جان سے بھی شریک ہو۔ انسانی تاریخ گواہ ہے کہ بعض تہوار کسی دوسری قوم اور معاشرے کیلئے اس حد تک بھی ناخوشگوار ہو جاتے ہیں کہ ایک دوسرے کے خلاف تلواریں تک میان سے باہر نکل آتی ہیں لیکن دنیا میں ایک ایسی بھی قوم ہے جو ان باتوں پر بھی خوشیوں کے شادیانے بجاتی نظر آتی ہے جو دنیا میں بستے والی اقوام ہی کیلئے نہیں بلکہ ہر غیرت مند فرد کیلئے شرمساری کا باعث ہوتا ہے۔

لوگ خوشیاں اس وقت منایا کرتے ہیں جب اپنے رزق اور آمدنی میں سے کسی مستحق کی مدد کرتے ہیں۔ افراد یا معاشرہ اس وقت شادیانے بجایا کرتا ہے جب وہ اپنی جائیداد میں اضافہ کرتا ہے۔ کوئی زمین خریدتا ہے، کوئی مکان اپنے نام کرتا ہے، کوئی مل یا کارخانہ بناتا ہے۔ ہر فرد اور معاشرے کیلئے ہر قسم کی یہ مثبت پیش رفت خوشی و انبساط کا سبب بنتی ہے۔ ایسے موقعوں پر مبارک بادیاں دی جاتی ہیں، میلے لگتے ہیں، مٹھائیاں تقسیم ہوتی ہیں، پکوان تیار کئے جاتے ہیں، رقص و سرور کی محافل سجائی جاتی ہیں اور شکرانے کے نوافل ادا کئے جاتے ہیں۔ یہ تو وہ خوشیاں ہوتی ہیں جو جہد و جہد کے ذریعے حاصل کی جاتی ہیں اور سچ تو یہی ہے کہ جو کامیابی بھی سخت جد و جہد کے ذریعے حاصل ہو وہی حقیقی خوشی ہوا کرتی ہے اور اس کا اظہار نہایت خوشی اورفخر کے ساتھ کیا جاتا ہے۔

ایک خوشی اور بھی ہوا کرتی ہے اور وہ کچھ اس طرح ہوتی ہے کہ کوئی شخص نہایت بے بسی اور بے چارگی کے عالم میں کسی سے سوال کرنے پر مجبور ہوجائے اور اس کا سوال سن کر دینے والا اس کی توقعات کے مطابق یا اس سے بھی بڑھ کر اس کی مدد کرنے پر تیار ہو جائے۔ ضرورت مند شخص ایسی ہمدردانہ اور امداد پر خوشی سے نہال ہو جایا کرتا ہے اور اپنے ہمدرد کا احسان ہمیشہ یاد رکھتا ہے۔ ایسے بے بس کو خوشی ضرور ہوتی ہے لیکن کیا ایسی خوشی اور ہمدردی کو قابلِ فخر قرار دیا جا سکتا ہے؟۔

پاکستانی ایک ایسی قوم کی شکل اختیار کرتے جا رہے ہیں جو کسی کی مدد تو بہت دور کی بات ہے، سود کے ساتھ قرض مل جانے پر بھی اس طرح مٹھائیاں تقسیم کرتی نظر آتی ہے جیسے اسے کھدائی کے دوران قارون کا مدفون خزانہ مل گیا ہو۔ ایک ایسی قوم جو سود کے ساتھ قرض لینے اور بنا قیمت لئے اپنی قیمتی اشیا کو غیروں کے حوالے کردینے کے بعد مبارک بادیوں کی بارش کرتی اور خوشی کے شادیانے بجاتی نظر آتی ہو تو ایسی قوم کی اخلاقی پستی پر رونے کے علاوہ اور کیا کیا جا سکتا ہے۔

آئی ایم ایف سے قرضہ لینے کیلئے پوری قوم کے سروں پر ٹیکسوں کے پہاڑ توڑ دینے اور اپنی ریاست کے بینک کو دنیا کے حوالے کر دینے پر جس انداز میں پورے پاکستان میں جشن منایا جا رہا ہے، ایک دوسرے کو مبارک بادیاں دی جا رہی ہیں، خوشیوں کے شادیانے بجائے جا رہے ہیں اور چینلوں پر خم ٹھونک کر کامیابی کے ترانے گائے جا رہے ہیں، اس پر خون کے آنسو بہانے کو دل چاہتا ہے۔

کسی بھی گداگر کے کاسے میں اگر آپ اس کی توقع سے بڑھ کر نوٹ ڈال دیں تو وہ خوشی سے مرے گا نہیں تو پاگل ضرور ہو جائے گا۔ کیا ایسا ہی حال ہمارے حکمرانوں اور ان کے چاہنے والوں کا نہیں۔ اسمبلیوں سے آئی ایم کی بھاری شرائط کی منظوری لے لینا اور اسٹیٹ بینک کی بنا اجرت مکمل خود مختاری دنیا کے حوالے کر دینا جیسے دل چیر دینے والے اقدامات کو قابل فخر کارنامہ کہنے والوں کو پاگلوں کی فہرست شامل نہیں کیا جائے تو اور کیا کیا جا سکتا ہے۔ بھیک نہیں، کیونکہ بھیک قابل واپسی نہیں ہوا کرتی۔ سودی قرض، اور ریاستی بینک کو دنیا کے حوالے کر دینا، تایخ کا وہ تاریک باب ہیں جس پر گردنیں اکڑانا اور شادیانے بجانا ایک ایسا کریہہ فعل ہے جس کو قابلِ ستائش قرار دینے والوں کو یا تو پاگل کہا جاسکتاہے یا ملک کا دشمن۔ اللہ سے دعا ہے کہ وہ پاکستان کو اپنی حفظ و امان میں رکھے (آمین)۔

حصہ
mm
حبیب الرحمن ایک کہنہ مشق قلم کار ہیں وہ بتول، اردو ڈائجسٹ، سرگزشت، سنڈے میگزین(جسارت)، جسارت اخبار میں "صریر خامہ" ٹائیٹل اور کچھ عرحہ پہلے تک "اخبار نو" میں "عکس نو" کے زیر عنوان کالم لکھتے رہے ہیں۔انہوں نے جامعہ کراچی سے سیاسیات میں ماسٹرز کیا ہے۔معالعہ اور شاعری کا شوق رکھتے ہیں۔