تحریک انصاف کے دور حکومت میں پریشانی ہر چہرے سے عیاں ہے، درمیانے اور نچلے درجے کے لوگوں کے لیے جسم و جاں کا رشتہ برقرار رکھنا مشکل ہوچکا، امیر افراد امیر تر اور غریب غریب تر ہورہے ہیں۔ ملک میں کرپشن کا راج ہے، مہنگائی اپنے عروج پر ہے، روزگار کا حصول مشکل ترین ہوچکا ، اور بظاہر کوئی حکومتی ادارہ ایسا نظر نہیں آتا جس کی کارکردگی بہترین اور مثالی ہو۔ مگر اس کے باوجود حکومتی شخصیات گڈ گورننس اور معاشی ترقی کا راگ الاپ رہے ہیں۔
کرپشن کا عالمگیر جائزہ لینے والے ادارے ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل نے بھی کرپشن سے متعلق سی پی آئی انڈیکس رپورٹ 2021ء جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان میں کرپشن میں اضافہ ہوا ہے ۔ پاکستان کرپشن کے بارے میں عالمی رینکنگ میں 140 ویں نمبر پر آگیا ہے ۔ گزشتہ سال کرپشن پرسیپشن انڈیکس میں پاکستان کا نمبر 124واں تھا۔ 2018ء میں موجودہ حکومت نے جب اقتدار سنبھالا اس وقت پاکستان کا کرپشن انڈیکس میں 117واں نمبر تھا۔ 2019ء میں پاکستان درجہ بندی میں 120ویں نمبر پر تھا۔ 2020ء میں 124 ویں اور اب 2022ء میں 140 ویں نمبر پر آنا اس بات کا اشارہ ہے کہ موجودہ دور حکومت میں پاکستان کی 23 درجے تنزلی ہوئی ہے ۔ آج وزیر اعظم عمران خان تواتر کیساتھ یہ کہتے نظر آتے ہیں کہ پاکستان ٹریک پر واپس آگیا ہے۔
کرپٹ مافیا کا احتساب اور طاقتور کو قانون کے تابع کیا جارہا ہے ۔ ان کا یہ دعویٰ عوام پاکستان تسلیم کرتے اگر وہ اپنے تین سالہ دور حکومت میں کسی بھی مافیا کا احتساب کرنے میں کامیاب ہوتے ۔ لیکن بدقسمتی سے ان ہی کے دور حکومت میں چینی اور آٹے کا بحران سامنے آیا، مہنگائی نے سارے ریکارڈ توڑ دیے، بے روزگاری نے غریب پاکستانیوں کا جینا دوبھر کردیا۔ کرپٹ مافیا کے احتساب کی دعویدار پاکستان تحریک انصاف کی حکومت میں وزیراعظم کے کورونا پیکیج پر اربوں روپے کے اخراجات کا آڈیٹر جنرل آف پاکستان نے آڈٹ کیا تو پتا چلا کہ ان اخراجات میں چالیس ارب روپے کی بدعنوانی پائی گئی ۔
پی ٹی آئی کے تین سالہ دور اقتدار میں یہ معلوم ہوا کہ آئل مافیا، چینی مافیا، گندم مافیا کے خلاف کوئی طاقت کارروائی نہیں کرسکتی۔ آج بھی پاکستان کا نظام ایسا معلوم ہوتا ہے کہ طاقتور مافیا پر کوئی ہاتھ نہیں ڈال سکتا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ملک کی بڑی جماعتوں، برسر اقتدار شخصیات اور مافیاز میں قریبی تعلق ہے ۔ بدقسمتی سے ہمارے ملک میں کرپشن آج بھی عروج پر ہے، بلکہ بدعنوان عناصر مافیا کی شکل اختیار کرچکے ہیں۔ ہمارے ملک کے سرکاری اداروں میں محض بورڈ پر ضرور لکھا ہوتا ہے ’’Say no to corruption‘‘ مگر یہاں کسی کام کا باحسن و خوبی انجام پانا بغیر رشوت دیے قطعاً ممکن نہیں۔
ہر سرکاری دفتر کے باہر کچھ لوگ بیٹھے ہوتے ہیں جو اس دفتر کے ماحول ، اور مشکلات کو حل کرنے کا فن جانتے ہیں۔ جبکہ بدعنوانی کے بڑھتے ہوئے اس ناسور کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ اب لوگ بدعنوانی کے مرتکب ہو کر بھی شرمندگی محسوس نہیں کرتے بلکہ اس پر فخر کرتے ہیں، اسے اپنی عقلمندی، عیاری ،چالاکی، ذہانت اورہنر سمجھتے ہیں۔ وسائل کی غیرمنصفانہ تقسیم اور اختیارات کے ناجائز استعمال نے سماجی اور معاشرتی اسٹرکچر کو بری طرح نقصان پہنچایا ہے اور انسانی ومذہبی اقدار کو پامال کرکے رکھ دیا ہے۔کرپشن سے بھرپور تھانہ کلچر،حکومتی اداروں میں کرپشن کا راج، حصول انصاف کا کمزور نظام، مصلحتوں اور بدعنوان افسران کی وجہ سے عوام میں بے بسی اور بے اختیاری کا احساس بڑھتا جارہا ہے ۔
عوام میں عدم اطمینان کے باعث ، حکومتی و سرکاری اور عدالتی اداروں پر ان کے اعتماد میں کمی واقع ہو رہی ہے۔ جبکہ ملک میں موجود انسداد بدعنوانی کے محکموں کی مایوس کن کارکردگی،اور ان سے استفادے کا پیچیدہ اور سست رو طریقہ کار، سرکاری اداروں میں کرپشن کا باعث بن رہا ہے۔اسوقت صورتحال یہ ہے کہ بنیادی سرکاری ادارے مثلاً بجلی ، سوئی گیس ، شہری ترقی کے ادارے، میونسپل کمیٹیاں ، لوکل گورنمنٹ کے دفاتر، سرکاری ادارے کم اور بدعنوانی کی نرسریاں زیادہ دکھائی دیتے ہیں، یہاں تعینات معمولی افسران کے بھی اثاثہ جات، اور عالیشان طرز زندگی دیکھ کر شہری انگشت بدنداں رہ جاتے ہیں ۔ یہاں بر سراقتدار رہنے والے حکمرانوں میں سے بھی بعض کلیدی عہدوں پر فائز سیاسی لیڈر کرپشن میں بری طرح ملوث رہے ہیں ، ان کی کرپشن ملک کا بچہ بچہ جانتا ہے مگر کہیں سیاسی مصلحتوں اور کہیں کمزور سسٹم کے باعث یہ افراد کرپشن کے تمام الزامات سے اس طرح بری الذمہ ہوجاتے ہیں جیسے دودھ کے دھلے ہوں۔ جبکہ یہاں اقتدار پر قابض رہنے والے بدعنوان حکمرانوں کی لوٹ مار اور بندر بانٹ، اور قر ضوں کے انبار کی وجہ سے مہنگائی بڑھتی جا رہی ہے اور عام لوگوں کا زندگی گزارنا اجیرن ہو چکا ہے۔
ایک طرف بڑے بڑے عہدوں پر فائز سرکاری افسر اور حکمران گروہ قومی دولت کی لوٹ مار کے باعث عیش و عشرت میں مگن رہے ہیں اور دوسری طرف غریب اور فاقہ کش لوگ آج بھی خود سوزی اور خودکشی کرنے پر مجبورہیں۔ بدعنوانی کے خاتمے میں موجودہ حکومت کسی قابل ذکر کارکردگی کا مظاہرہ نہیں کر سکی۔ ایف آئی اے، انٹی کرپشن اور نیب جیسے ادارے محض روایتی انداز میں کام کر رہے ہیں جن پر عوام کو اعتماد نہ ہونے کے برابر ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ان اداروں کو بھی نئے ٹاسک دئیے جائیں ، ان کو جدیدخطوط پر استوار کیا جائے اور ان کی کارکردگی کو تیز تر کیا جائے۔