وزیراعظم پاکستان عمران خان نے منصب سنبھالتے ہی خطے میں قیام امن کیلئے مودی کومذاکرات کی دعوت دیتے ہوئے کہا تھا کہ ’’بھارت امن کی جانب ایک قدم بڑھائے تو ہم دو بڑھائیں گے ‘‘مگر افسوس کہ بی جے پی سرکار اس سوچ کی حامی نہیں اوران کا یہی رویہ جمود کا باعث بناہو اہے ۔بھارت ایک طرف ورکنگ باؤنڈری اور کنٹرول لائن پر فائرنگ اور گولہ باری کر کے پاکستان کے لئے مشکلات جبکہ دوسری جانب افغانستان اور ایران کے راستے خطے میں انتہا ء پسندی کو فروغ دے رہاہے۔
خطے کے دیگر ممالک میں بیک وقت ہونے والی دہشت گردانہ کارروائیوں کی کڑیاں پاکستان کی سلامتی کے درپے بھارت کی جاری سازشوں کے ساتھ ملتی نظر آتی ہیں جسے اب خطے میں امن کی بحالی ہضم نہیں ہو رہی یہی وجہ ہے کہ مودی حکومت عالمی دہشت گرد تنظیم ’’داعش ‘‘کی بھی اسی مقصد کے تحت سرپرستی کررہی ہے۔قومی سلامتی پالیسی کے جو اہم نکات سامنے آئے ہیں اس میں ہر قیمت پر مادروطن کے دفاع کو ناگزیر اور اولین فریضہ جبکہ جنگ مسلط کرنے کی صورت میں قومی طاقت کے ساتھ بھرپور جواب دینے کا فیصلہ کیا گیا ہے جس کے لئے پاک افواج کو مزید مضبوط بنانے کے لئے روایتی استعداد کار کو تقویت دی جائے گی اس میں دفاعی پیدوار، مواصلاتی نیٹ ورک کی مرکزیت، جنگی میدان کی آگہی، الیکٹرانک وارفیئر دفاعی صلاحیت تقویت دئیے جانے کا بھی ذکر ہے۔
مسلح افواج ہمارا فخر ہیں ہائبرڈ وار کے بڑھتے ہوئے چیلنجز کے تناظر میں انہیں ہماری طرف سے بڑی اہمیت اور حمایت حاصل رہے گی، ہماری خارجہ پالیسی کا بڑا مقصد بھی یہی ہے کہ خطے میں امن و استحکام رہے،یہاں یہ بھی قابل غور امر ہے کہ کسی بھی قومی سلامتی پالیسی میں قومی ہم آہنگی اور لوگوں کی خوشحالی کو شامل کیا جانا چاہئے جبکہ بلاامتیاز بنیادی حقوق اور سماجی انصاف کی ضمانت ہونی چاہئے کیونکہ شہریوں کی وسیع صلاحیتوں سے استفادہ کے لئے خدمات پر مبنی اچھے نظم و نسق کو فروغ دینا ناگزیرہو چکا ہے۔طویل تنازع اور مسلسل تصادم سے عوام بری طرح متاثر ہورہے ہیں اور اگر ایک مرتبہ پھر افغانستان میں خانہ جنگی شروع ہوئی تو 20 برس میں جو ترقیاتی کام ہوئے ہیں وہ ناصرف تباہ ہوجائیں گے بلکہ بدامنی کی وجہ سے افغانستان سے ایک مرتبہ پھر بڑی تعداد میں لوگوں کی نقل مکانی شروع ہوگی لہٰذا تجارت،معیشت اور عوامی رابطوں سمیت دوطرفہ تعلقات کو مستحکم بنانے کیلئے امن کا فروغ بہت ضروری ہے۔
یہاں اس بات کو ذہن نشین رکھنا ہو گا کہ ایک پرامن اور مستحکم افغانستان ہی علاقائی روابط اور تجارت میں تعاون کی نئی راہیں کھولے گا۔افغانستان کی موجودہ صورتحال 2 دہائیوں کا تنازعہ اور گہری تقسیم کا نتیجہ ہے کیونکہ نیٹو افواج کی موجودگی میں طالبان کوسنجیدگی سے مذاکرات کی میز پر لانے کے بجائے جس طرح جنگ کو ترجیح دی گئی اس کے بھیانک نتائج آ ج خطے کے عوام کو بھگتنا پڑ رہے ہیں ۔بھارت کے ساتھ سرحدی تنازعات،مقبوضہ کشمیر پر غاصبانہ قبضے ،افغانستان سے دہشت گردوں کی دراندازی اور خطے اسٹرٹیجک اور جیو اکنامک پوزیشن کے تناظر میں جس قومی سلامتی پالیسی کا اعلان کیا گیا ہے یہ یقیناً سول اور عسکری قیادت میں یکجہتی کی علامت ہے کیونکہ اس کی روشنی میں جہاں عساکر پاکستان اور مزید مضبوط ہوں گی وہیں داخلی امن اور استحکام کو تقویت ملنے کے ساتھ ساتھ قومی سلامتی اور دفاع کے تقاضے پورے ہو سکیں گے۔
وطن عزیز کو درپیش چیلنجز، ہائبرڈ وار اور داخلی و خارجی محاذوں پر سنگین صورتحال کے پیش نظر ایک ایسی سلامتی پالیسی کی ضرورت تھی جو شہریوں کی سلامتی کے گرد گھومتی ہو ۔اس میں کوئی دو رائے نہیں ہیں کہ پاکستان کو ایک طرف مقبوضہ وادی میں بھارت کی طرف سے نافذ کئے گئے بدترین کرفیو کو ختم کرانے،مظلوم کشمیریوں کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں کی روشنی میں حق خود ارادیت دلانے جبکہ دوسری جانب افغانستان سے امریکی افواج کے انخلا ء کے دوران پیدا ہونے والے سیاسی اور انسانی بحران پر قابو پانے کے لئے بین الاقوامی تعاون کی اشد ضرورت ہے ۔افغان بحران پر حال ہی میں سعودی عرب کی تجویز پر پاکستان کی میزبانی میں اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی) کے رکن ممالک کے وزرا ء خارجہ کی کونسل کے 17ویں غیر معمولی منعقدہ اجلاس میں طالبان حکومت کے وزیر خارجہ امیر خان متقی، او آئی سی کے سیکریٹری جنرل ، اقوام متحدہ، یورپی یونین، عالمی مالیاتی اداروں، علاقائی و بین الاقوامی تنظیموں، جاپان، جرمنی اور دیگر نان او آئی سی ممالک کے نمائندوں نے اس بات پر زور دیا تھا کہ 2 دہائیوں سے افغانستان میں خواتین اور بچوں سمیت عوام مشکلات کا شکار ہیں لہٰذا ان کٹھن حالات میں معاشی و انسانی بحران پر قابو پانے کیلئے ہنگامی بنیادوں پر اقدامات کرتے ہوئے سرمایہ کاری کو فروغ دینا ہو گاجس کے لئے ایک ایسا گروپ تشکیل دیا جائے جودرپیش مالی چیلنجز اور بنکاتی نظام کی عدم موجودگی کا حل تلاش کرسکے ۔
نائن الیون کے بعد دہشت گردی کیخلاف نام نہاد جنگ جتنی عجلت کے ساتھ شروع کی گئی اتنی ہی سرعت کے ساتھ ادھورا چھوڑ کر امریکہ کا خطے سے انخلاء اور بھارتی ایماء پر سابق افغان حکومت کے امن مذاکرات سے راہ فرار نے پرتشدد کارروائیوں اور معاشی و انسانی بحران کو جنم دیا ہے ۔ پاکستان نے طالبان کو مذاکرات کی میز پر لانے کے لئے کوئی کسر نہیں چھوڑی لیکن بھارتی وزیراعظم نریندر مودی اور سابق افغان ا نتظامیہ کے لگائے گئے بے سروپا الزامات اورکارروائیوں سے ’’امن عمل ‘‘کوشدید دھچکا لگا جس کا اندازہ اس امر سے بھی بخوبی لگایا جا سکتا ہے کہ واشنگٹن اور اس کے اتحادیوں کو دہشت گردی کیخلاف نام نہاد جنگ میں ناکامی کے بعد پاکستان کے اس بیان کو تسلیم کر نا پڑا کہ افغان مسئلے کا حل عسکری نہیں مذاکرات ہی تھا۔
امریکہ نے افغانستان پر حملے کا فیصلہ سانحہ نائن الیون کے بعد کیا بظاہر یہ کارروائی القاعدہ اور افغان طالبان کے خلاف تھی لیکن اس میں بڑے پیمانے پر جہاں افغان شہریوں کا جانی اور مالی نقصان ہوا وہیں ان 2دہائیوں میں امریکہ کے کوئی30ہزار فوجی بھی نشانہ بنے جن میں 3ہزار کے لگ بھگ ہلاک ہوئے۔افغان جنگ کے دوران پاکستان کے 80 ہزار سے زائد شہری شہید جبکہ معیشت کو اربوں ڈالرز کا نقصان پہنچا۔پاکستان کے خلاف اسٹریٹجک سبقت کھونے کے خوف سے طالبان کے اقتدار سنبھالنے کی قانونی حیثیت پر سوال اٹھانابھی مودی کی بوکھلاہٹ کا واضح ثبوت تھا۔ افغانستان اور پاکستان کے درمیان 2611 کلو میٹر طویل سرحد ہے لہٰذا مزید بدامنی یا خانہ جنگی کی صورت میں پناہ گزینوں کاجو دباؤ بڑھے گااس کے خطرناک نتائج برآمد ہوں گے۔پاکستان اور چین کو مشترکہ اقتصادی راہداری کے منصوبے’’ سی پیک‘‘ کو آپریشنل کرنے کیلئے علاقائی امن کی زیادہ ضرورت ہے تاکہ عالمی منڈیوں تک رسائی آسان ہو سکے لہٰذا افغانستان کی خراب ہوتی صورتحال پر دونوں ممالک کا فکرمند ہونا ایک فطری امر ہے۔ پاکستان افغانستان سمیت خطے میں امن واستحکام چاہتا ہے لہٰذا ایک وسیع البنیاد اور محفوظ حل کے لئے بین الافغان مذاکراتی عمل ناگزیر ہو چکا ہے اور اس کے آنے والے دنوں میں یقیناً دو ررس نتائج برآمد ہوں گے۔