’’کرونا میں بڑھتی عدم مساوات‘‘

آکسفیم برطانوی ادارہ، جو ہر سال اپنی رپورٹ پیش کرکے دْنیا کو بیدار کرنے کی کوشش کرتا ہے کہ اگر وہ ممالک جن کا شمار دولت مند اور ترقی یافتہ ملکوں میں ہوتا ہے وہ اپنی ذمہ داریوں کو محسوس کرتے ہوئے دْنیا سے غربت کے خاتمے کی ’جدوجہد‘ میں سنجیدہ اور مخلص نہیں ہوں گے تو غربت کا مسئلہ سنگین سے سنگین تر ہوجائے گا۔

آکسفیم کی تازہ رپورٹ کے مطابق پوری دْنیا میں غربت زدہ آبادیوں کے جو حالات پہلے تھے، اب ویسے بھی نہیں رہ گئے ہیں بلکہ کورونا کی وباء نے معاشی عدم مساوات کو تشویشناک حدوں تک پہنچا دیا ہے۔ رپورٹ یہ بھی کہتی ہے کہ پوری دْنیا میں 99فیصد افراد کی آمدنی متاثر ہوئی ہے مگر ایک فیصد کے وارے نیارے بھی ہوئے ہیں۔ اس دوران کروڑوں کی تعداد میں نئے غریب بھی پیدا ہوئے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق، آبادی کے بہت بڑے حصے کی آمدنی کا متاثر ہونا تو افسوسناک ہے ہی، اْن لوگوں کی دولت میں غیر معمولی اضافہ بھی چونکانے والا ہے جو پہلے ہی بہت امیر تھے۔ یہ نئے طرز کی سرمایہ داری ہے جو ترقی اور خوشحالی کا خواب دکھا کر لُوٹ مار مچائے ہوئے ہے۔

حکومتیں خواہ وہ کسی پارٹی اور اتحاد کی ہوں، اْمراء ہی کے اشاروں پر ناچتی ہیں اور ہمدردی کے باوجود غرباء کی جڑیں کاٹنے میں مصروف رہتی ہیں۔ امیروں کے مزید امیر اور غریبوں کے مزید غریب ہونے کے جس رْجحان پر آکسفیم نے توجہ مبذول کرائی ہے، کوئی نیا رجحان نہیں ہے۔ گزشتہ رْبع صدی کی صورتحال یہ ہے کہ دْنیا کے ایک فیصد لوگ، جو امیر ہیں، پہلے کے مقابلے میں دْنیا کی کئی گنا زیادہ دولت پر قابض ہونے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ غریب غیر محسوس طریقے پر غریب نہیں ہوتا وہ اپنے وسائل کے چھن جانے اور محرومیوں میں اضافے کی حقیقت سے واقف ہوتا ہے مگر چونکہ بڑھتی غربت کے باعث اْس کی پریشانیوں میں بھی اضافہ ہوتا رہتا ہے اس لئے وہ مبتلا ہی رہتا ہے، اپنا احتجاج درج نہیں کرپاتا۔ اس کے باوجود ماضی قریب میں ایسی تحریکات جاری ہوئی ہیں جن کے ذریعہ غریب اپنے حالات کو اْجاگر کرسکے اور اپنی برہمی کا اظہار کرسکے۔

امریکہ جیسے ترقی یافتہ اور دولت مند ملک میں 2011 ء میں جاری ہونے والی ’’وی آر دی 99‘‘ (ہم 99 فیصد ہیں) مہم اسی سلسلے کی کڑی ہے۔ اس کا نام ہی مقصد کی تفہیم کیلئے کافی تھا کہ قومی وسائل پر سرمایہ دار طبقے (ایک فیصد) کی اجارہ داری ختم ہو اور بقیہ آبادی (99فیصد) کو اْس کا حصہ ملے۔ یہ احتجاج نیویارک تک محدود نہ رہ کر امریکہ کے دیگر شہروں میں بھی پھیل گیا تھا۔ اس کے اثرات دیگر ملکوں تک میں دکھائی دیئے تھے۔ مگر ہر دور اور ملک کی ایک ہی داستان ہے کہ جب بھی کوئی گروہ اپنا حق مانگنے کیلئے نمودار ہوتا ہے اْس کی بات سننے کے بجائے اْس سے دشمن جیسا سلوک کیا جاتا ہے۔ امیروں کے ذریعہ دیگر طبقات کا استحصال اسی لئے جاری رہتا ہے جس میں حکومتیں بھرپور معاون کا کردار نبھاتی ہیں۔ وکٹر ہیوگو نے دل کو چھولینے والی بات کہی تھی کہ امیروں کی جنت، غریبوں کے جہنم سے بنتی ہے۔ لطف کی بات یہ ہے کہ امیروں کی امارت بڑھتی ہے تو غریبوں سے جھوٹی ہمدردی میں بھی اضافہ ہو جاتا ہے۔

جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ کرونا وائرس کی ابتداء چین کے شہر ووھان کی ایک لیبارٹری سے ہوئی تھی ۔ اب یہ بات پایہ تکمیل کو پہنچ چکی ہے کہ یہ لیبارٹری امریکہ کے تعاون سے کام کررہی تھی۔ جیساکہ ہم جانتے ہیں کہ چین اس وقت تیزی کے ساتھ پیداواری صنعت میں آگے بڑھ رہا تھا اس کے علاوہ چین میں جو کمپنیاں اور ان کے تحت کام کرنے والی صنعتیں ہیں وہ تمام کی تمام چینیوں کی ملکیت نہیں ہیں بلکہ بتایا یہ جاتا ہے کہ ان میں ساٹھ فیصد سے زائد وہ کمپنیاں ہیں جن کے مالکان یا تو امریکی ہیں یا یورپین۔ اس لئے سب سے پہلے دنیا کو اس وائرس کے خوف میں مبتلا کرنے کے لئے چین سے ابتدا کی گئی تاکہ یہاں ہونے والی ہلاکتوں کی تعداد دیکھ کر دنیا خوف میں مبتلا ہوجائے اس کے بعد باقی دنیا کو اس کی لپیٹ میں لیا جائے۔

اس سارے کام سے پہلے دنیا بھر کا جتنا بھی دجالی مین اسٹریم میڈیا ہے اسے اس خوف کی ترویج کے لئے مامور کردیا گیا۔ جبکہ یہ ایک خطرناک قسم کا فلو ہے جس میں اسّی فیصد سے زائد افراد کے دوبارہ صحت یاب ہوجانے کے قوی امکانات ہوتے ہیں لیکن جان بوجھ کر اس کا ایسا تاثر دیا گیا کہ انسان اس مرض میں مبتلا افراد کو اچھوت سمجھنے لگیں۔ اس کے بعد اس بیماری نے یورپ اور امریکہ کا رخ کیا ۔ یہاں بھی پراسرار انداز میں ایسی اموات دکھائی گئیں جن کے بارے میں دنیا کو یہ تاثر دیا گیا کہ یہ سب کرونا سے ہلاک ہوئے ہیں ۔ اس تاثر نے ترقی پذیر ممالک میں خوف کی لہر دوڑا دی وہ سمجھنے لگے کہ اگر امریکہ اور یورپ اور چین جیسے ترقی یافتہ ممالک اس وائرس کے سامنے بے بس ہوچکے ہیں تو باقی دنیا کا اللہ ہی حافظ ہے۔ یہ سب کچھ بھی ایک خاص دجالی پلاننگ کے تحت کیا گیا۔ جبکہ امریکہ جیسے ملک میں عام حالات میں بھی کئی ہزار ہلاکتیں ہوتی تھیں بے شمار افراد مختلف بیماریوں سے ہلاک ہوتے تھے لیکن اچانک وہ تعداد کہاں چلی گئی؟

بہرحال یہ سلسلہ ابھی جاری تھا کہ گیارہ مارچ کو آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک نے اعلان کیا کہ کرونا وائرس سے متاثر ممالک کی مالی امداد کی جائے گی اس اعلان سے پہلے تک کرونا وائرس سے ہونے والی اموات کا گراف محض دس فیصد تک تھا لیکن جیسے ہی عالمی صہیونی دجالی مالیاتی اداروں نے اس کا اعلان کیا اچانک یہ گراف آسمان پر پہنچ گیا اب ہر ملک کی لالچی انتظامیہ کی یہ کوشش تھی کہ زیادہ سے زیادہ کرونا کے مریض دکھا کر زیادہ مالی امداد حاصل کی جائے ۔ اس طرح ان ملکوں میں جو لوگ دیگر بیماریوں سے مررہے تھے وہ بھی کرونا کے کھاتے میں ڈال دیئے گئے گئے ۔بہرحال اس خوف سے فائدہ اٹھا کر دجالی صہیونی مافیا نے دنیا کی بڑی آبادی کو گھروں میں قید کرکے ان ملکوں کی معیشت تباہ کردی تاکہ لوگ بھوک سے مرجائیں اور دنیا کی آبادی سمٹ کر رہ جائے۔