قائداعظم محمد علی جناح نے پاکستان بننے کے بعدطلبہ سے خطاب کرتے ہوئے کہاکہ:’’میں تمہیں پاکستان کا معمارسمجہتاہوں اوردیکھ رہاہوں کہ تم اپنی باری پرکیا کچھ کر دکھاتے ہو،اس طرح رہو کہ کوئی تمہیں گمراہ نہ کرسکے۔ اپنی صفوں میں اتحاد اور مضبوطی پیداکرو، تمہارا اصل کام کیا ہے؟ اپنی ذات سے وفاداری،اپنے والدین سے وفاداری، اپنے ملک سے وفاداری اور اپنی تعلیم پرپوری توجہ‘‘ ۔
اس قول کی روشنی میں دیکھیں تو قائد اعظم نے ہمیشہ اپنے سب سے زیادہ محبت کرنے لے اپنے سب سے قریبی حلقےیعنی طالب علموں کو ایک انتہائی بہترین ہدایت دی اور وہ یہ کہ انسان ہمیشہ اپنے آپ سے وفادار رہے۔یہی بات علامہ اقبال نے اپنے اس شعر میں کہی کہ
اپنے من میں ڈوب کر پاجاسراغ زندگی
تو اگر میرا نہیں بنتا نا بن اپنا تو بن
اپنے آپ سے وفاداری اپنی ذات سے محبت اور اپنے دل کی بات پوری توجہ سے سننا۔یہی بات ہم سب پر صادر آتی ہے۔ ہمیں اپنے آپ سے اپنے ملک اپنے شہر اپنے لوگوں سے محبت کرنی چاہیئے۔کیونکہ قرآن میں بھی اللہ مومنین کی صفات میں یہی بیان فرماتے ہیں جو علامہ اقبال نے اپنی شاعری میں بیان کیاہے کہ
ہو حلقہ یاراں تو بریشم کی طرح نرم
رزم حق و باطل ہو تو فولاد ہے مومن
اب آتے ہیں اپنے پیارے ملک پاکستان کے سب سے بڑےاور معاشی حب شہر کراچی کی جو ہم سب کا شہر ہے۔ہم اسکے مکین ہیں یہ ہماری ماں ہے۔ کراچی پاکستان کا سب سے بڑا شہر اور صنعتی، تجارتی، تعلیمی، مواصلاتی و اقتصادی مرکز ہے۔ کراچی دنیا کاچهٹا بڑا شہر اور پاکستان کے صوبہ سندھ کا دارالحکومت ہے۔ شہر دریائے سندھ کے مغرب میں بحیرہ عرب کی شمالی ساحل پر واقع ہے۔ پاکستان کی سب سے بڑی بندرگاہ اور ہوائی اڈا بھی کراچی میں ہے۔ کراچی 1947ء سے 1960ء تک پاکستان کا دار الحکومت تھا۔ موجودہ کراچی کی جگہ پر واقع قدیم ماہی گیروں کی بستی کا نام مائی کولاچی تھا۔ جو بعد میں بگڑ کر کراچی بن گیا انگریزوں نے انیسویں صدی میں اس شہر کی تعمیر و ترقی کی بنیادیں ڈالیں۔ 1947ء میں پاکستان کی آزادی کے وقت کراچی کو نو آموز مملکت کا دار الحکومت منتخب کیا گیا۔ اس کی وجہ سے شہر میں لاکھوں مہاجرین کی آمد ہوئی۔پاکستان کا دار الحکومت اور بین الاقوامی بندرگاہ ہونے کی وجہ سے شہر میں صنعتی سرگرمیاں دیگر شہروں سے قبل شروع ہو گئیں تھیں۔ 1959ء میں پاکستان کے دار الحکومت کی اسلام آباد منتقلی کے باوجود کراچی کی آبادی اور معیشت میں ترقی کی رفتار کم نہیں ہوئی تھی۔
کراچی جو روشنیوں کا شہر غریبوں کی ماں کا لقب پاتا تھا.یہاں کی گلیاں ،چوبارے اور چوراہے غریبوں کے لیے ہر وقت کهلے رہتے تهے.اس کی معیشت پر ملکی معیشت کا انحصار ہوا کرتا تها.مملکت خداداد کا میٹروپولیٹن شہر کا اعزاز ہونےکے ساتھ ساتھمختلف قومیتوں قبیلوں ذات اور برادری اور ملک بھر سے لوگ یہاں روزگار اور تعلیم حاصل کرنے آتے تهے.لیکن رفته رفته یہاں کی رونقوں کو دشمن کی نظر لگ گئی …غیروں کی سازشوں اور اپنوں کی بے اعتنائی نے آہسته آہسته اس شہر کا امن ختم کردیا
وہی کراچی جو ملکی سیاست معیشت معاشرت صنعت وثقافت میں اپنا ثانی نا رکهتا تها اپنوں کی رقابتوں انتقام اور سازشوں کی نظر ہوگیا.قتل و غارت گری،چوری،دن دیہاڑے قتل ،بھته،ٹارگٹ کلنگ،عصمت فروشی،ڈکیتی،لوٹ مار،فتنه و فساد اور لسانی جھگڑے یہاں روز کا معمول بن گئی .عصبیت کی بھڑکائی ہوئی آگ اس قدر بڑہی کے کراچی سال کے بارہ ماہ اس آگ میں سلگتا جارہا ہے۔کبھی بھائی لوگوں کے بھتے پورے نہ ہونے پر مزدوروں سے بھری فیکٹری نذر آتش کردی جاتی ہے تو کبھی ٹیکسوں کی بہتات اور کے الیکٹرک کی غنڈہ گردی سے شہر اندھیاروں میں گھرا نظر آتاہے۔
میئر کراچی وسیم اختر جن کے عہدے کی معیاد 28 اگست 2021 کو مکمل ہو گئی تھی، انہوں نے وفاقی اور سندھ کی صوبائی حکومتوں پر الزام لگایا تھاکہ انہوں نے مقامی حکومتوں کا بااختیار بنانے کا معاملہ حل نہیں کیا۔
یہ تنازع بڑے عرصہ سے کراچی کے مسئلہ کے حل سے زیادہ اس کا حصہ ہے لیکن گزشتہ چند برسوں سےاور خصوصاَ 2011 سے سپریم کورٹ نے کراچی کے مسائل کو بڑی سنجیدگی سے لیا ہے جب سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے از خود نوٹس کارروائی کے تحت کراچی میں امن و امان کے معاملے کو اٹھایا ۔لیکن کراچی کے مسائل ابھی تک حل نہیں ہو ئے۔ زیادہ تر حکومتوں کی توجہ عبوری اور عارضی اقدامات پر رہی۔
کراچی کو تنظیمی اور سیاسی دونوں طرح کے مسائل کا سامنا ہے۔ اس سے کہیں زیادہ یہ عروس البلاد مختلف مافیاز کے شکنجے میں رہا۔ امن و امان کے علاوہ بجلی، پانی ، گیس،اووربلنگ،ڈکیتی،چوری،قتل و غارت گری،منشیات و ڈرگ مافیا کا کنٹرول اور بنیادی انسانی سہولتوں کا بھی فقدان رہاہے۔ تمام بڑے شہری ادارے اپنی غفلت اور نا اہلی کے باعث مسائل کے حل میں ہمیشہ ناکام رہے۔شہر کراچی کھنڈر اور کچرے کے ڈھیر میں تبدیل ہو گیا۔ سیاسی طور پر کراچی والوں کو شہر کے ڈومیسائل پر ملازمتوں کے حصول میں شدید دشواریوں کا سامنا رہاہے۔ مقامی لوگوں کو گریڈ ون سے گریڈ پندرہ تک میں ملازمتیں نہیں ملتیں۔
وقت کے ساتھ ساتھ ہر مافیاز نے قیمتی زمینوں پر قبضے کرنے شروع کر دیے اور یہ قبضے چھڑانا اتنا آسان کام نہیں ہے ۔ان مافیاز کی وجہ ہی سے ابھی تک کراچی کا کوئی مسئلہ حل نہیں ہوا۔چالیس سال پرانا ماس ٹرانزٹ کا مسئلہ ہویا عظیم تر آب رسانی منصوبہ کے۔فور یا سرکلر ریلوے کی بحالی کاکام ہو یا چنگچی رکشوں سے بڑھتے ٹریفک حادثات کوئی اپنے انجام کو نہیں پہنچا۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ کراچی میں فراہمی آب کا کوئی مسئلہ نہیں، خرابی تقسیم آب کے نظام میں ہے اگر واٹربورڈ،کنٹونمنٹ بورڈ اور ڈی ایچ اے کے اپنے واٹر ٹینکرز ہیں تو انہیں تین ہزار سے چھ ہزار روپے فی ٹینکر پانی فروخت کر نے کے لیے کس نے دیا ؟ کراچی میں 38 بڑے اور 500 چھوٹے نالے ہیں جنہیں حکومت سندھ ہمیشہ صاف کرنے میں بری طرح ناکام ثابت ہوئی اس ابتری کی بلدیاتی حکومت بھی برابر کی ذمہ دار ہے۔
اب سندھ کے نئے بلدیاتی نظام کے تحت کراچی میٹروپولیٹن کارپوریشن کے زیر انتظام میڈیکل اینڈ ڈینٹل کالج سمیت عباسی شہید اسپتال، سوبھراج اسپتال، لیپروسی سینٹر اور سرفراز رفیقی اسپتال کا انتظام سندھ حکومت سنبھالے گی، تعلیم اور صحت کا شعبہ بلدیاتی اداروں سے واپس لے لیا گیا ہے۔لوکل گورنمنٹ ترمیمی بل2021 کے مطابق کراچی سمیت سندھ کے بڑے شہروں میں کارپوریشنز اور ٹاونز کا نظام ہو گا۔ یونین کمیٹیز کےوائس چیئرمینز ٹاؤن میونسپل کونسل کےرکن ہوں گے۔ٹاؤن میونسپل کونسل کےارکان میں سےمیئر ڈپٹی میئر کا انتخاب ہوگا، پیدائش و اموات اور انفیکشز ڈیزیز کا شعبہ بلدیاتی اداروں سے واپس لے لیا گیا۔ کم از کم 50 لاکھ کی آبادی پر میٹروپولیٹن کارپوریشن ہو گی اور بلدیاتی نمائندوں کی مدت چار سال ہو گی۔
حافظ نعیم الرحمان کا کہنا ہےکہ ہم اس ایکٹ کو آئین پاکستان کے مطابق نہیں سمجھتے۔ہم سمجھتے ہیں کہ تمام اختیارات سندھ حکومت نے لے لئے ہیں۔اس سے پہلے بھی ہم نے آپ سے بات چیت کی تھی اور اپ کو تجاویز دی تھی۔اگر اب بھی آپ سنجیدگی سے بات آگے بڑھاتے ہیں تو ہم تیارہیں۔ورنہ ہمارا دھرناجاری رہےگا۔ حکمران یہ بات سن لیں کہ یہ دھرنا تو اب نہیں رکے گا۔اور اسمیں خواتین بچوں کی بڑی تعداد میں شمولیت اور دن بدن اس میں اضافہ ہونا اس بات کا ثبوت ہے کہ پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی کو جو ملک کا سب سے زیادہ ریوینیو جنریٹ کرتاہےاس سے سارے اختیارات کیسے چھینے جارہے ہیں۔تمام پانی،بجلی،گیس،سیوریج،تعلیم،لاء اینڈ آرڈر،قانون کے تمام ادارے،بزنس،ٹریڈ،اسٹاک ایکسچینج کراچی کے تمام اداروں کو میئر کے ماتحت ہونا چاہیئے۔ہمارا یہ مطالبہ ہماری یہ ڈیمانڈ ایسی تو نہیں ہے کہ اس پر عمل کیا ناجاسکےیا یہ کوئی ناجائز ڈیمانڈ ہو؟کراچی جیسا شہر جو پورے مرکز اور صوبے کا ریوینیو چلاتاہے۔اس شہر کو آپ اتنے اختیارات بھی نہیں دو گے تو کیسے معاملات آگے بڑھیں گے؟
حافظ نعیم الرحمان کی قیادت میں دھرنے میں موجود افراد کراچی کی تین کروڑ نفوس کا فرض کفایہ ادا کرنے اس سخت سردی اور شدید بارش کے موسم میں اپنے نرم گرم بستروں کو چھوڑ کر،اپنے عزیز او اقرباء کو چھوڑکر،اپنے معصوم بچوں کو چھوڑ کر اپنے گرم کمروں کو چھوڑ کر،اپنے تمام خواب چھوڑ کر ایک پکار پر منظم ہوکر سندھ اسمبلی کے سامنے دھرنا دیئے بیٹھے ہیں۔ان کی آواز میں اپنی آواز شامل کیجئے اور کراچی کے باشندے ہونے کا ثبوت دیجئے۔
یہ میرے آپ کے ہم سب کے کراچی کی جائز حقوق کی آواز ہے۔آیئے اس آواز میں اپنی آواز شامل کیجئے۔ سچوں کا ساتھ دیجئے۔ان سرفروش عاشقوں کا ساتھ دیجئےکہ جو آپ کو کبھی تنہا نہیں چھوڑتے۔یہ دیس کے سچے محب وطن مخلص اور ایماندار افراد کا قافلہ ہے۔