ایک وقت تھا جب کتاب دوستی عروج پر تھی نوجوان نسل فضول مشغلوں کی بجائے مطالعے کا ذوق رکھتی تھی ۔ بدقسمتی سے عہد حاضر میں 19 فیصد عوام ہی کتب بینی کے شوقین ہیں باقی عوام ماضی سے بے خبر اور مستقبل کے لیے کوشاں نظر آ رہے ہیں ۔ کتاب ہمیں شعور دیتی ہے اور ایک بہترین دوست کے ساتھ معلومات کا خزانہ بھی ہے۔ کتب بینی کے بغیر انسان کا وجود ایسے ہی ہے جیسے ہوا اور پانی کے بغیر جینا ۔
نوجوان جسے اقبال شاہین کے لفظ سے مخاطب کرتے تھے ، وہ نوجوان جو کسی قوم کی کامیابی کی علامت سمجھا جاتا تھا، وہ نوجوان جو فتح ، بلند پروازی ، جفاکشی اور عزم وہمت کا دوسرا نام سمجھا جاتا تھا آج زوال کی علامت بنا ہے ۔ آج کا نوجوان خود کو کتاب سے دور پا کر سکون اور کامیابی کی کنجی تلاش کر رہا ہے اور اس مقصد میں مسلسل ناکام ہو رہا کیوں کہ مطالعہ انسان کے لیے اتنا ہی ضروری ہے جتنا جسم کے لیے خوراک ۔ کتابیں انسانی زندگی پر خوش گوار اثر ڈالتی ہیں اور انسان مختلف زاویوں سے ہر شے کو پرکھنے لگتا ہے ۔ انسان کی ذہنی صلاحیتیں مطالعے سے ابھرنے لگتی ہیں ۔
انٹرنیٹ جس کی افادیت سے انکار ممکن نہیں یہ کتب بینی کے رجحان میں کمی کا سب سے بڑا سبب ہے ۔ نوجوان نسل گھنٹوں آن لائن گیمز میں مصروف رہتی اور جب ان کے ہاتھ میں موبائل کی بجائے کتاب تھما دی جائے تو طبیعت ناساز ہوجاتی۔ راقم کی کتاب یکم جنوری کو شائع ہوئی اور اس کے بعد معلوم ہوا کتب بینی کا رجحان نوجوان نسل میں کس حد تک کم ہو کر رہ گیا ہے ۔ نوجوان نسل منشیات سے لذت و سکون اور مطالعے سے ذہنی دباؤ اور الجھن محسوس کرتی ہے ۔
مطالعے کا رجحان کم ہونے کی وجہ کتابوں کی قیمتوں میں اضافہ نہیں بلکہ ذوق مطالعہ ختم ہونا ہے ۔ آئیں مل کر عہد کریں کہ پھر سے اپنے بچوں ، بھائیوں ، بہنوں اور دوستوں میں مطالعے کا شوق ابھاریں گے۔ اور حکومت سے درخواست کروں گا کہ وہ بھی سنجیدگی سے اس مسئلے پر توجہ دے شہر میں پبلک لائبریروں کا قیام عمل میں لایا جائے جس سے اہل علم طبقہ فائدہ لے سکے اسی میں ہماری قوم کی اور ہماری کامیابی شامل ہے ۔