سورۂ اِخلاص ، معلومات اور منکرین کو جوابات

جو اللہ کے ساتھ اوروں کی بھی عبادت کرتے ہیں اور انہیں شریک الہٰی مانتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ انہی کی وجہ سے ہم قُربِ الہٰی حاصل کر سکتے ہیں ان سے کہو کہ اگر تمہارا یہ گمان فاسد کچھ بھی جان رکھتا ہوتا اور اللہ کے ساتھ واقعی کوئی ایسے معبود ہوتے کہ وہ جسے چاہیں قُربِ اِلہٰی دِلوا دیں اور جس کی جو چاہیں سفارش کر دیں تو خود وہ معبود ہی اس کی عبادت کرتے اس کا قرب ڈھونڈتے پس تمہیں صرف اسی کی عبادت کرنی چاہیے ، نہ اس کے سوا دوسرے کی عبادت ، نہ دوسرے معبود کی کوئی ضرورت کہ اللہ میں اور تم میں وہ واسطہ بنے۔ اللہ کو یہ واسطے سخت ناپسند اور مکروہ معلوم ہوتے ہیں اور ان سے وہ انکار کرتا ہے اپنے تمام نبیوں رسولوں کی زبان سے اس سے منع فرماتا ہے۔ اس کی ذات ظالموں کے بیان کردہ اس وصف سے بالکل پاک ہے اور اس کے سوا کوئی معبود نہیں۔ ان آلودگیوں سے ہمارا مولا پاک ہے ، وہ احد اور صمد ہے ، وہ ماں باپ اور اولاد سے پاک ہے۔

حضرت موسیٰ علیہ السلام نے الله جل شانہ کے وجود و وحدانیت کے اثبات کے لئے فرعون سے سامنے تین (٣) عقلی دلائل پیش کیے:

پہلی دلیل:

رَبُّ السَّمٰوٰتِ وَالأَرضِ وَما بَينَهُما

یعنی آسمان و زمین اور جتنی موجودات ان میں ہے ، وہ ایک ایجاد کرنے والے پر دلالت کرتے ہیں.

دوسری دلیل:

رَبُّكُم وَرَبُّ ءابائِكُمُ الأَوَّلينَ ۔

جب پہلی دلیل فرعون کی سمجھ میں نہیں آئی تو حضرت موسیٰ نے ایسی دلیل پیش کی مخالفین کے مشاہدے سے قریب تر تھی. وہ یہ کہ الله جل شانہ نے ان کے آباء و اجداد کو عدم سے وجود میں بخشا، پھر انھیں مرنے کے بعد تمہیں عدم سے وجود بخشا اور زمین کو آباد کیا. جیسا کہ قرآن کریم میں ارشاد ہے: أَم خُلِقوا مِن غَيرِ شَيءٍ أَم هُمُ الخٰلِقونَ 0  أَم خَلَقُوا السَّمٰوٰتِ وَالأَرضَ ۚبَللايوقِنونَ()

کیا یہ کسی کے پیدا کئے بغیر ہی پیدا ہوگئے ہیں۔ یا یہ خود (اپنے تئیں) پیدا کرنے والے ہیں؟ یا انہوں نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا ہے؟ (نہیں) بلکہ یہ یقین ہی نہیں رکھتے.

تیسری دلیل:

فرعون چونکہ خود کو خدا اور قادر مطلق سمجھتا تھا لہذا حضرت موسیٰ علیہ السلام نے آخر میں الله جل شانہ کی قدرت کی ایسی زبردست ، دلیل بیان کی کہ جس کا اس کے پاس کوئی جواب نہ تھا ، جسے حضرت ابراہیم علیہ السلام نے بھی نمرود کے سامنے وہی دلیل پیش کی جسے سن کروہ دنگ رہ گیا:

قالَ إِبْرَٰهِيمُ فَإِنَّ اللَّهَ يَأتى بِالشَّمسِ مِنَ المَشرِقِ فَأتِ بِها مِنَ المَغرِبِ فَبُهِتَ الَّذى كَفَرَ ۗوَاللَّهُلايَهدِىالقَومَالظّٰلِمين()

ترجمہ :ابراہیم نے کہا کہ خدا تو سورج کو مشرق سے نکالتا ہے آپ اسے مغرب سے نکال دیجیئے (یہ سن کر) کافر حیران رہ گیا اور خدا بےانصافوں کو ہدایت نہیں دیا کرتا۔

قارئین :جس دور میں ہم جی رہے ہیں اس دور میں اسلام کش رویہ اور انسان کی بے باکی بہت زیادہ دیکھنے کو مل رہی ہے ۔نمایاں رہنے اور سیلف میڈ کا خمار سرچڑھ کر بول رہاہے جس کی وجہ سے سرکش انسان نے خدا کی ذات پر بھی ابحاث شروع کردی ۔خیر بات طویل ہوجائے گی ۔آئیے ذرا سورۃ اخلاص جو توحید پر بہترین دلیل ہے جاننے کی کوشش کرتے ہیں ۔

سورۂ اِخلاص ایک قول کے مطابق مکی اور ایک قول کے مطابق مدنی ہے ۔( خازن، تفسیر سورۃ الاخلاص، ۴  /  ۴۲۵)

رکوع اور آیات کی تعداد: اس سورت میں  1رکوع اور 4 آیتیں  ہیں ۔

’’سورۂ اِخلاص ‘‘ کے اَسماء اور ان کی وجہِ تَسْمِیَہ :مفسرین نے اس سور ت کے تقریباً20نام ذکر کئے ہیں  ان میں  سے 4 نام یہاں  ذکر کئے جاتے ہیں :

(1)… اس سورت میں  اللّٰہ تعالیٰ کی خالص توحید کا بیان ہے، اس وجہ سے اسے ’’سورۂ اِخلاص‘‘ کہتے ہیں ۔

(2)… اس سورت میں  یہ بتایا گیا ہے کہ اللّٰہ تعالیٰ ہر نقص و عیب سے بری اور ہر شریک سے پاک ہے،اس مناسبت سے اسے ’’سورۂ تنزیہہ‘‘ کہتے ہیں ۔

(3)…جس نے اس سورت سے تعلق رکھا وہ غیروں  سے الگ ہو جاتا ہے اس لئے اسے’’سورۂ تجرید‘‘ کہتے ہیں ۔

(4)…اسے پڑھنے والا جہنم سے نجات پا جاتا ہے اس بنا پر اسے ’’سورۂ نجات‘‘ کہتے ہیں ۔

جی قارئین:آپ منکرین خداکے حوالے سے اعتراضات کے جوابات جاننے کے خواہاں ہیں تو کامل اور مستند اہل علم سے ضرور رابطہ رکھیں ۔حضرت امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ سے بھی ایک مرتبہ وجود باری تعالیٰ پر دلیل طلب کی گئی تو آپ نے فرمایا۔ سنو یہاں ایک نہایت مضبوط قلعہ ہے جس میں کوئی دروازہ نہیں نہ کوئی راستہ ہے بلکہ سوراخ تک نہیں باہر سے چاندی کی طرح چمک رہا ہے اور اندر سے سونے کی طرح دمک رہا ہے اوپر نیچے دائیں بائیں چاروں طرف سے بالکل بند ہے ہوا تک اس میں نہیں جا سکتی اچانک اس کی ایک دیوار گرتی ہے اور ایک جاندار آنکھوں کانوں والا خوبصورت شکل اور پیاری بولی والا چلتا پھرتا نکل آتا ہے۔ بتاؤ اس بند اور محفوظ مکان میں اسے پیدا کرنے والا کوئی ہے یا نہیں؟ اور وہ ہستی انسانی ہستیوں سے بالاتر اور اس کی قدرت غیر محدود ہے یا نہیں؟ آپ کا مطلب یہ تھا کہ انڈے کو دیکھو چاروں طرف سے بند ہے پھر اس میں پروردگار خالق یکتا جاندار بچہ پیدا کر دیتا ہے۔ یہی دلیل ہے اللہ کے وجود پر اور اس کی توحید پر۔۔اللہ کریم ہمیں حق سمجھنے اور اس پر قائم رہنے کی توفیق عطافرمائے ۔آمین