ایک بکری پانی کی تلاش میں نکلی دور اسے پانی نظر آیا ، اس نے ادھر چھلانگ لگائی ، وہاں دلدل تھی وہ اس میں پھنس گئی ، اب وہ نکلنے کیلئے جتنا زور لگاتی اور دھنستی جاتی ، اتنے میں ایک بھیڑیا ادھر آ نکلا ، وہ بھی پانی اور شکار کی حرص میں نکلا تھا ، شکار اور پانی ایک ساتھ دیکھ کر اس نے بھی دور سے چھلانگ لگائی اور وہ بھی دلدل میں پھنس گیا ، بکری نے بھیڑئیے کو دھنستا دیکھا تو ہنس پڑی ، بھیڑئیے نے پوچھا تو بھی میری طرح پھنسی ہے پھر ہنستی کیوں ہے ، تو بکری نے کہا وہ سامنے دیکھ میرا مالک آرہا ہے ، وہ آکر مجھے مجھے نکال لے گا اور نکال کر اپنے ساتھ لے جائے گا ، اب تُو بتا تو بھیڑیا ہے تیرا کون ہے اور تجھے کون بچائے گا۔
یہ فارسی کی کہاوت ہے کہ اپنے آپ کو مالک کے کھونٹے سے باندھ لو وہ تمہیں ضائع نہیں ہونے دے گا ، یہ کہاوت مجھے اس لئے یاد آئی کہ کچھ دوست سوشل میڈیا پر دینی سوچ تو اپنائے ہوئے ہیں لیکن انہوں نے اپنے آپ کو کسی کھونٹے سے باندھا ہوا نہیں ہے ، یعنی وہ دین کی بات تو کر رہے ہیں لیکن کسی دینی جماعت سے وابستہ نہیں ہیں ، وہ کسی مذہبی پیشوا کو قائد نہیں مانتے ، جس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ وہ علاقائی مسائل سے لے کر عالمی سطح تک کے چیلنجز کو اپنی نظر سے دیکھتے ہیں ، جس کی وجہ سے وہ اکثر خطا کھا جاتے ہیں ،اس لئے دینی سوچ رکھنے والے ہر فرد کو میری پہلی دعوت تو یہ ہے کہ اللہ والوں کے ہاتھ میں دے دیں ان شاءاللہ پُرامن اور آئینی جدوجہد کے ذریعے منزل پر پہنچ جائیں گے۔
اگر مشکلات اور مصائب سے گھبراتے ہیں تو پھر کسی نہ کسی حق دینی جماعت میں ضرور شامل ہوں ، دینی جماعتوں کو مضبوط کئے بغیر کوئی بھی تنہا فرد انقلاب نہیں لاسکتا ، اس لئے اسلامی نظام کے نفاذ کے لئے آگے بڑھیں اور اجتماعی کوشش کے لئے دینی جماعتوں کو مضبوط کریں ، دینی جماعتوں کے آپس کے اختلاف سے بھی مایوس نہ ہوں ، بعض لوگ اختلافی بات کرتے ہوئے بہت گھبراتے ہیں ، اختلافی باتیں ڈس کس کرنے سے دینی کارکنان میں شعور پیدا ہوگا ، فقط امیر کی اطاعت کے نام پر سر جھکا کر کام کرنے کے بجائے اگر سوال کر کے جئیں گے تو ہماری سوچوں میں وسعت پیدا ہوگی ، اس لئے اختلاف رائے کرتے وقت ہرگز مت گھبرائیں ، البتہ آداب اور مقام کا مکمل خیال رکھیں۔
اچھے اور برے لوگ ہر جگہ موجود ہیں ، اور بد کی صحبت کے الگ الگ اثرات مرتب ہوتے ہیں ۔ صحبت کے اچھے اور برے اثر سے کسی کو انکار نہیں، یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ نیک لوگوں اور اچھوں کی صحبت سے انسان اچھا بنتا ہے اور اس کے اندر اچھائیاں جنم لیتی ہیں نیکیاں پروان چڑھتی اور پنپتی ہیں اور بروں کی صحبت سے انسان برا بنتا ہے اور برائیاں وجود میں آتی ہیں ۔ فارسی کا مشہور و معروف مثل ہے گھر کی خواتین اور مائیں بہنین بھی اکثر اس مثال کو پیش کرتی تھیں کہ صحبت صالح ترا صالح کند
صحبت طالح ترا طالح کند،
یعنی صالح اور نیک لوگوں کی صحبت تجھے نیک بنائے گی اور برے افراد کی صحبت و ہم نشینی ان کے ساتھ میل جول سے تمہارے اندر برے اور ناپاک خیالات جنم لیں گے، تمہاری روش ،ڈگر اور چال چلن خراب ہوجائے گا ۔ شب و روز کا مشاہدہ ہے کہ اچھے لوگوں کی صحبت سے لوگ اچھے اور نیک بنتے ہیں اور بروں کی صحبت سے لوگ برے بنتے ہیں اور غلط راہ اختیار کر لیتے ہیں ۔
ابو داود کی ایک حدیث ہے آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا :کہ نیک دوست کی مثال ایسی ہے جیسے مشک بیچنے والے کی دکان کہ اور کچھ فائدہ نہ بھی ہو تو خوشبو ضرور آئے گی اور برا دوست ایسا ہے جیسے بھٹی سے آگ نہ لگے تب بھی دھوئیں سے کپڑے تو ضرور کالے ہوجائے گے ۔
اس سے انکار کی گنجائش نہیں کہ اہل اللہ، بزرگان دین، علماء کرام اور صلحاء کی مجالس میں بیٹھنے اور ان کی باتوں اور اقوال و ملفوظات کو سننے سے دل میں نرمی اور گداز پیدا ہے ،دل میں عمل کا شوق اور جذبہ پیدا ہوتا ہے ،اور اصلاح نیت کی توفیق ملتی ہے ۔ پتھر کی طرح سخت دل بھی موم بن جاتا ہے اور اس قابل ہوجاتا ہے کہ اس میں صلاح و تقوی اور عمل صالح کی بیج ڈالی جاسکے ۔
سیرت پر نظر رکھنے والوں کو علم ہوگا کہ صحابئہ کرام رضی اللہ عنھم اجمعین کو جو بھی مقام و مرتبہ حاصل ہوا وہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی صحبت کا فیض تھا،وہی بلال حبشی رضی اللہ عنہ جو پہلے غلام تھے حبشہ سے آئے تھے شکل و صورت بھی اچھی نہیں تھی ،لیکن جب انہوں نے کلمہ پڑھ لیا اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی مبارک صحبت اختیار کی تو وہ دنیا کے امام بن گئے،حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ جیسے جلیل القدر صحابی بھی ان کو سیدنا کہہ کر مخاطب فرماتے ،ان کے علاوہ بھی جتنے صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کے فضائل و مناقب کتب حدیث میں موجود ہیں، سب کا تعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی پاک صحبت اور عشق و محبت سے ہے، یہی کیا کم ہے کہ کسی تفریق کے بغیر اللہ تعالی نے آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے فیضان صحبت اور مجالس نبوی کی بنیاد پر تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کے لئے اپنی خوشنودی کا اعلان فرما دیا۔
حضرت علی رضی اللہ عنہ* فرماتے ہیں کہ گنہگار کی صحبت میں مت رہو ،کیوں کہ وہ اپنی بد عملی اور بے حیائ کو اچھا خیال کرتا ہے ،اس کی خواہش اور چاہت ہوتی ہے کہ دوسرا ساتھی بھی اسی کی طرح برا کام کرے ۔پہلو پر خاص طور روشنی اور ہدایت ملتی ہے کہ فرد کی تعمیر یا اس کے بگاڑ میں ماحول اور معاشرہ کا اہم اور بنیادی رول اور کردار ہوتا ہے ،اگر سماجی اور معاشرتی ڈھانچہ زندگی کی اعلی قدروں اور خصوصیتوں کا حامل ہوتا ہے تو اچھے لوگ اور اچھے افراد وجود میں آتے ہیں ،جن سے قوم و ملت اور سماج و سوسائٹی کو فائدہ پہنچتا ہے اور انسانیت کی تعمیر و ترقی کی راہ پر فطری رفتار سے چلتی رہتی ہے لیکن اس کے برعکس برے ماحول اور برے سماج میں رہ کر انسان اپنی اعلی صلاحیتوں اور کارناموں سے محروم ہوجاتا ہے، گویا کہ انسانیت کی ترقی و فروغ اس کے بگڑنے اور بننے میں ماحول اور سوسائٹی و سماج زبردست رول اور کردار ادا کرتا ہے ۔