کہا جاتا ہے کہ ایک بار شاعر مشرق علامہ محمد اقبال جاوید منزل لاہورمیں رہائش پزیر تھے تو اپنے ایک دوست کے ہمراہ کسی پیر صاحب کے ہاں جانے کا اتفاق ہوا۔لوگوں کا تانتا بندھا ہوا تھا۔کچھ لوگ وظائف میں مشغول تھے اور کچھ پیر صاحب سے بیت تقوی حاصل کر رہے تھے۔اتنے میں ایک عقیدت مندجو بظاہر شکل سے انتہائی مفلوک الحال معلوم ہوتے تھے،آئے اور دوزانو ہو کر پیر صاحب کی دست بوسی کر کے ،لجاجت کے ساتھ عرض گزار ہوئے، حضور! سو روپے کا مقروض ہوں ۔۔۔دعا فرمائیے،اللہ تعالی آسانیاں فرمائے۔
پیر صاحب نے سر سے اجابت کا اشارہ فرمایا۔جب وہ مرید وآپس جانے لگا تو اس نے چپکے کے ساتھ پیر صاحب کی مٹھی میں دس روپے کا نوٹ تھما دیا۔جب حضرت اقبال نے یہ نظارہ دیکھا تو رہا نہ گیا اور ہنسی چھوٹ گئی۔پیر صاحب نے بڑے غضب ناک نظروں سے دیکھتے ہوئے پوچھا جناب آپ کیوں ہنسے؟حضرت اقبال نے عرض کی ! حضور آپ کی دعا قبول ہو گئی۔پیر صاحب نے پوچھا وہ کیسے؟ تو جناب اقبال نے کہا پہلے یہ شخص سو روپے کا مقروض تھا اور اب ایک سو دس روپے کا ہوگیا ہے۔خانقاہی نظام کا مقصد مسلمانوں کی ظاہری اور باطنی تربیت، دین و دنیا کی اصلاح ،علمی و عملی تصحیح کے علاوہ کچھ نہ تھا۔حقیقی اولیاء کرام اور صوفیاء عظام نے ان عظیم مقاصد کی تکمیل کے لیے شب و روز تگ و دو فرمائی۔جس جگہ قدم ٹکائے گم گشتہ راہوں کو آشنائے حقیقت بنا دیا۔
نور ایمان اور ذات خداوندی کا عرفان سینوں میں بھر دیا۔خاکی انسانوں کو رشک ملائکہ کر دیا۔لوگ سب کچھ چھوڑ کر اللہ و رسولﷺ کے ہو گئے۔عالم انسان اور بالخصوص پاکستان کے حصول میں ان نفوس عالیہ کا بنیادی کردار ہے۔مسلمانوں کی گردنیں ہمیشہ ان ولیوں کی بار منت و احسان رہیں گی۔لیکن کچھ نا عاقبت اندیشوں ستم ظریفوں،خود ساختہ ولیوں اور دنیا دار صوفیوں نے سادہ لوح مسلمانوں کی اس عقیدت و محبت کا نا جائز فائدہ اٹھایا۔مذہبی مکاتب فکر میں سب سے تیز ترین اور کم خرچ کاروبار پیری مریدی بن چکاہے۔نقلی پیر مریدوں سے ششماہیاں وصول کر رہے ہیں۔اگر کسی موقع پر کوئی پیر صاحب کسی مرید کے گھر قدم رنجہ فرما لیں تو اسے پیر صاحب کی خاطر مدارت کے لیے احباب سے قرضہ تک لینا پڑ جاتا ہے لیکن پیر بے تدبیر کو اپنے مرید کی غربت تک کا احساس نہیں ہوتا۔علامہ اقبال نے ایسے پیروں کے بارے میں کہا ہے۔
ہم کو تو میسر نہیں مٹی کا دیا بھی
گھر پیر کا بجلی سے چروغوں سے ہے روشن
میراث میں آئی ہے انہیں مسند ارشاد
زاغوں کے تصرف میں ہیں عقابوں کے نشیمن
جاہل صوفیہ اور ناخواندہ پیروں نے اپنی دکان چمکانے اور عوام الناس کو اپنا گرویدہ بنانے کے لیے علم دشمنی کا مکروہ دھندہ شروع کر رکھا ہے۔جاہل پیر علم دشمنی میں اس قدرمستغرق ہیں کہ علم سے دور رہنے کے لیے اپنے مریدین کو یہ شعر رٹوا چکے ہیں۔
علموں بس کرے او یار
اکو الف تیرے درکار
جب کہ انہیں علم ہونا چاہیے کہ یہ بھی کسی کامل صوفی کا فرمان ہے
علم باجھ جو کرے فقیری
کافر مرے دیوانہ ھو
اولیاء کرام تو علم کے شیدائی ہوا کرتے تھے اور ان کے سجادہ نشین کہلانے والے معلوم نہیں علم کے اس قدر دشمن کیوں ہیں؟شاید اسی دشمنی کا نتیجہ ہے کہ مساجد ،مدارس اور علمی مراکز کے بجائے انہوں نے کتوں ،گھوڑوں ،بٹیروں اور بندروں کی سنگت وپرورش شروع کر رکھی ہے۔اولیاء اللہ کے مزارات مقدسہ جو کبھی علم و عرفان کا مرکز و محور ہوا کرتے تھے اب وہاں میلے لگائے جاتے ہیں۔ایک طرف لکی ایرانی سرکس ،ملنگیوں کا ہجوم،شراب و کباب کی محفلیں،ڈھول ڈھمکے پر ناچ،قوالیوں کا شوراور پیر کو سجدے ہیں جب کہ دوسری طرف ،ویران،بے آباد اور خستہ حال مسجد ہے جسے کبھی کھول کر سجدہ کرنا تو درکنار صاف بھی نہیں کی گئی۔قلندر لاہوری نے کہا تھا۔
خداوند تیرے یہ سادہ دل بندے کدھر جائیں
ہے درویشی بھی عیاری،ہے سلطانی بھی مکاری
دوسری طرف بعض لوگ وہ ہیں جنہوں نے اولیا ء کو جاہل ،بے دین اور ایک الگ مذہب کا پیروکارتصور کرنا شروع کیااور یہ کہا کہ صوفی جاہل ہوتا ہے اور یہ بآور کروابے کی کوشش ہوتی ہے کہ ان اولیاء کا علم وعمل سے کوئی تعلق نہیں صرف محض چند اوراد و ظائف رکھتے ہیں۔فتنہ تاتار کی بربادیوں اور تباہیوں سے کون واقف نہیں جس میں کبھی ۹ لاکھ علماء اور ۵۰ لاکھ مسلمانوں کا قتل کیا گیا۔۔۔۔انسانی کھوپڑیوں کے مینار تعمیر کیے گئے۔ ۔۔مسلمانوں کا علمی سرمایہ دریائے دجلہ میں بہا دیا گیا۔۔۔جب دین کا نظام درہم برہم ہوا تو پھر یہی سچے اہل اللہ میدان میں اترے لشکرو سپاہ لے کر نہیں روحانی تصرفات اور کلمہ حق لے کر،اور اس وقت تک میدان عمل میں گامزن رہے جب تک کہ سقوط بغداد کرنے والے حلقہ بگوش اسلام نہیں ہو گئے۔شاعر مشرق نے کہا تھا۔
ہے عیاں یورش تا تا ر کے افسانے سے
پاسباں مل گئے کعبے کو صنم خانے سے
آج پاک و ہند پر جو کروڑوں مسلمان دکھائی دیتے ہیں یہ کسی جرنیل یا سپہ سالارکی تبلیغ نہیں بل کہ یہ اولیاء عظام اور علماء کرام کی سعی جمیلہ سے مشرف بااسلام ہوئے۔یہی وہ مرد حق ہیں جن کے طفیل کفر و شرک کی کالی گھٹائیں کافور ہوئیں۔ضلالت و گمراہی کے اندھیرے چھٹ گئے۔ظلمت کدہ ہند میں نور اسلام کا اجالا پھیلا۔فضائیں نغمہ توحیدورسالت سے معمور ہو گئیں۔ان اولیاء کرام نے اپنے علمی و عملی دلائل کے ساتھ بتوں کے پجاریوں کو خدائے وحدہ لاشریک کے سامنے سجدہ ریز کر دیا۔شیخ سعدی شیرازی نے کہا تھا۔
چوں شمع از پئے علم باید گداخت
بے علم نتواں خدارا شناخت