یہ آپ اپنے موبائل اسٹیٹس پر روز کیا لگارہی ہیں۔دھرنا،دھرنا،حقوق دو۔۔۔میری ہمسائی،عزیز سہیلی انوشہ پوری آنکھیں پھیلائے،مسکراہٹ لئےسوال کررہی تھی ! چونکہ اکثر انوشہ کے لگائے اسٹیٹس پر مجھے اعتراض ہوتا تھا۔سو آج محترمہ حساب برابر کرنا چاہ رہی تھیں۔۔۔میرا موقف ہمیشہ یہی رہا۔کہ اسٹیٹس بامقصد ہو،ریسٹورنٹ میں کھانا کھاتےسیلفی لی اسٹیٹس لگادیا۔گھر میں پکوڑے،مچھلی،بسکٹ بنائے۔اسٹیٹس پر۔میں کہتی،اگر کوئی تمھاری طرح لذت کام و دہن کے مزے نہی اڑا سکتا،اپ کا اسٹیٹس دیکھ کر مایوس ہو،اشتعال میں،منفی سوچے۔۔نقصان کرلے۔۔اس برائی،تباہی میں تمھارا حصہ ہوگا ۔
انوشہ برا فروختہ ہوتی۔۔ٹی وی پر کھانے کے اتنے چینلز روز یہی دکھاتے ہیں۔آج پھر انوشہ کا کہنا تھا۔میڈیا پر دھرنے کی کوریج نہ ہونے کے برابر۔۔نہ کراچی کے حقوق کا پتہ چلتا۔۔تمھارے موبائل پر دھرنا ذیادہ پتہ چل رہا ہے۔۔اتنی سخت سردی،بارش۔۔میں دھرنا۔۔کیا ضروری ہے۔۔؟؟
تو پیاری انوشہ ۔۔
دو عالم سے کرتی ہے بیگانہ دل کو عجب چیز ہے لذت آشنائی،
تم نے علامہ اقبال کی شاعری پڑہی ہے۔انوشہ سوالیہ نظروں سے دیکھ رہی تھی۔
ہمارا میڈیا تو حق اور سچ کے لئے اندھا،گونگا ہے۔۔بے مقصد ،تہذیب سے عاری ذندگی،موج،مستی،جیسے چاہے جیو۔۔میڈیا تو یہی سکھا رہا ہے۔عوامی مسائل کے لئے دھرنے کی دھرنے کی کوریج،اہمیت نہ دینا میڈیا کی غیر ذمہ دادی،غیر سنجیدگی ہے۔کتنے برسوں سے کراچی کے عوام بنیادی سہولتوں سے محروم،ان گنت مسائل سے نبرد آزما ہیں۔ٹوٹی سڑکیں،ابلتے گٹر،صفائی کا فقدان،ٹرانسپورٹ کا مسئلہ،کے الیکٹرک کی دہشت گردی۔۔مہنگائی۔۔کوئی مسائل حل کرنے والا نہیں۔ثوبیہ نے کہا۔۔۔
ہاں،میری بھتیجی چند دن پہلے ٹوٹی سڑک پر گر گئی۔اسکول سے واپسی میں۔گٹر کا پانی بھرا تھا۔پتھر رکھے تھے۔کتے بھی ٹہل رہے ہوتے وہ ڈر کر تیز چلی۔گر گئی۔سر پر ٹانکیں آئے ہیں۔۔۔۔انوشہ نے تاسف سے بتایا۔
بہت افسوس ہوا۔۔۔۔۔پہلے بھی تو سڑکیں بھی بنتی تھیں۔نہ گٹر ابلتے تھے۔نہ کتے آزاد گھومتے تھے۔۔اب نہ بلدیاتی انتخابات کرارہے۔اور اختیارات بھی ہضم کرلئے۔اسی لئے تو دھرنا دیا ہے۔
پڑوس کی سائرہ باجی کو درد تھا ۔سرکاری ہسپتال گئیں۔وہاں درد کا انجکشن نہیں لگایا۔درد سے تڑپتی رہیں۔کوئی خیال نہیں کیا۔مجبورا پرائیویٹ ہسپتال گئیں۔نہ سرکاری اسکولوں میں تعلیم ہے۔نہ سرکاری ہسپتالوں میں علاج ہے۔کراچی کے بلدیاتی اختیارات بحال ہوں اور یہ اختیارات کرپشن سے پاک ،اہل نمائندوں کے پاس ہوں۔تب ہی عوام کے یہ مسائل حل ہوں گے۔اب کراچی کے عوام کا فرض ہے۔وہ ان مخلص،باہمت لوگوں کا ساتھ دیں۔جو سخت سردی میں عوام کے حقوق کے لئے ڈٹے ہوئے ہیں۔
ثوبیہ نے کہا۔چلونگہت باجی کے پاس چلتے ہیں۔جن کے گھر درس قرآن ہوتا ہے۔ان سے کہیں۔ہمیں بھی دھرنے میں شرکت کرنی ہےاور ان غاصبوں کا دھڑن تختہ کرنا ہے۔دھرنا،دھرنا،دھرنا۔۔اللہ کراچی کو پھر سے پرامن،پرفضا،عروس البلاد بنائے۔ اور کراچی کے عوام کو مخلص،امانت دار نمائندوں،حق کو پہچاننے،ساتھ دینے کا شعور عطا فرمائے۔۔آمین۔