سانحہ مری۔۔۔۔ذمہ دار کون؟

گذشتہ ایک ہفتہ جہاں پورے ملک میں بارشوں کا سلسلہ جاری رہا۔وہیں پہاڑی علاقوں میں برفباری بھی ہو رہی تھی۔اللہ تعالیٰ نے ہمارے ملک کو ہر موسم اور ہر نعمت سے نوازا ہے۔جیسے جیسے برفباری کا موسم قریب آتا ہے۔میدانی علاقوں کے لوگ برفباری دیکھنے کے شوق میں مری اور گلیات کا رخ کرتے ہیں۔یہ ہمارے ملک کے لیے ایک نعمت ہے۔تمام دنیا میں ایسے پہاڑی علاقوں کو سیاحتی مرکز کا درجہ دیا جاتا ہے۔یہاں سے بڑا زر مبادلہ کمایا جاتا ہے۔معیشت کو مضبوط کرنے کے لیے ایسے مقامات کے لیے باقاعدہ منصوبہ بندی کی جاتی ہے۔کہ آیا ایسے مقامات پہ لوگوں کے لیے کتنی اور کیسے سہولیات دی جائیں گی۔

مری میں گذشتہ ہفتہ مکمل طور پہ برفباری کا ہفتہ تھا۔جیسے جیسے لوگوں نے مسلسل بارشیں دیکھیں انہوں نے سوچا مری میں برف ہو رہی ہو گی چلو مری چلتے ہیں۔مری میں حد بھی ہو تو دس ہزار گاڑیاں داخل ہو سکتی ہیں۔دس ہزار گاڑیوں کی پارکنگ کی گنجائش ہے۔ایک لاکھ گاڑیاں پانچ روز کے دوران مری میں داخل ہوئیں۔کوئی ان کو پوچھنے والا تھا نہ روکنے والا کہ بھائی وہاں اتنی گنجائش نہیں ہے وہاں نہ جاؤ۔ کتنے ٹول پلازہ ہیں جو مری میں داخل ہونے والوں اور نکلنے والوں سے ٹول ٹیکس وصول کرتے ہیں۔ کیا ہماری انتظامیہ اس بات سے لاعلم تھی کہ سردیوں میں برفباری کے نتیجے میں راستے بند ہو جاتے ہیں۔کیا ہماری انتظامیہ نہیں جانتی کہ مری جیسے پہاڑی مقام پہ اگر capacity سے زیادہ گاڑہاں داخل ہو گئیں اور کوئی قدرتی آفت کا سامنہ کرنا بھی پڑا تو کیسے انتظام کریں گے۔

ایک لاکھ گاڑیاں مری میں داخل ہوئیں تو فواد چوھدری صاحب نے فخر کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنی حکومت کا کارنامہ گردانا کہ لوگوں کے پاس اس قدر پیسہ ہے کہ سارے ہی تفریح کے لیے نکل کھڑے ہوئے ہیں۔اگر ان کے اندر ذرا بھی قابلیت ہوتی تو وہاں کے موسم اور سیاحوں کو سنبھالنے کی اہلیت کو زیر غور لاتے۔سوچنے کی بات یہ ہے کہ کسی نے وہاں کے موسم کو بھی نہ دیکھا۔آج کل ہر ایک انٹرنیٹ کے استعمال سے بخوبی واقف ہے۔گوگل پہ اگر ابھی بھی گذشتہ ہفتے کا weather دیکھا جائے تو وہ تین مقامات جہاں برف کا طوفان آیا اور جہاں لوگوں کی گاڑیاں پھنس گئیں وہاں. طوفان کی پیشن گوئی پہلے سے موجود تھی۔ہماری نااہل انتظامیہ کیا لوگوں کو مری میں داخلے سے نہیں روک سکتی تھی۔یہ کوئی ابھی کا یا چند سال کا قصہ نہیں۔نہ مری میں برفباری ابھی شروع ہوئی ہے اور نہ ہی لوگ ابھی جانا شروع ہوئے ہیں۔

کیا یہ ضروری نہیں تھا ایک طریقہ کار وضح کیا جائے۔ ایسا طریقہ کار جو کے تمام دنیا میں تفریحی مقامات کی سیاحت کے لیے وضح کیا جاتا ہے۔ایک محکمہ جس کے تحت مری کے تمام ہوٹل رجسٹر ہوں۔تفریح کے لیے جانے والے افراد جو وہاں رہائش کے متمنی ہوں پہلے سے ریزرویشن کروائیں۔مری میں داخل ہونے والی ہر گاڑی کے پاس اپنے ہوٹل کی یا رہائش گاہ کی معلومات ہوں۔محکمے کے ماتحت عملہ ٹول پلازہ پہ موجود ہو اسے پتہ ہو کہ کتنی گاڑیاں حدود علاقہ میں داخل ہو چکی ہیں اگر یہ مقررہ تعداد سے زیادہ ہیں تو انہیں علاقے میں داخل ہونے سے روک دیا جائے۔مگر سوال یہ ہے کہ ایسا محکمہ یا انتظامیہ آئے گی کہاں سے؟ اگر ایسا محکمہ بن گیا تو مری میں موجود ہوٹل مافیا کی پیدا گیری ختم ہوجائے گی۔وہ لوگوں سے فالتو پیسہ کیسے نکلوائیں گے؟ دس روپے کی چیز سو روپے کی کیسے بیچیں گے؟ اور یہی تو سیزن ہوتا ہے ان کا جس میں وہ پورے سال کی کمائی کرتے ہیں تو پھر ان کا سیزن کیسے لگے گا؟ تو ذمے دار تو یہ پیدا گیر انتظامیہ ہے جس نے نہ تو کوئی باقاعدہ محکمہ بنایا اور نہ ہی لوگوں کے لیے کوئی جانکاری نظام ترتیب دیا۔

یہ تصویر کا ایک رخ ہے۔اب ہم تصویر کا دوسرا رخ دیکھتے ہیں۔اگر انتظامیہ کی نااہلی کی وجہ سے مری میں موجود سیاح پھنس ہی گئے تھے، تو کیا وہاں کے رہائشی اپنے علاقے کے موسم سے آشنا نہیں تھے؟کیا وہ لوگوں کو ہوٹل میں رہنے کا مشورہ نہیں دے سکتے تھے۔اگر کوئی ہوٹل میں نہیں رہ سکتا تھا تو اسے اپنے گھر لے جاتے کہ آپ کے ساتھ چھوٹے بچے ہیں بزرگ ہیں، یہاں کے موسم کا کچھ پتہ نہیں چلتا، آپ آج رات ہمارے گھر رک جائیں۔مگر ایسی کوئی ایک مثال بھی دیکھنے کو نہیں ملی۔کیا انسانوں میں انسانیت ختم ہو چکی ہے؟کیا وہاں کہ لوگوں کو بچے بوڑھے خواتین دکھائی نہیں دی تھیں؟بیس بائیس لوگ گاڑیوں میں دم گھٹ کر موت کے گھاٹ اتر گئے کسی نے ان کی مدد نہ کی۔

گذشتہ دنوں مری،گلیات کی ہی ایک ویڈیو نظر سے گزری گاڑیاں برف کی وجہ سے پھسل رہی تھیں۔اور دو نوجوان ان کا مذاق اڑا رہے تھے۔لوگ سڑک کنارے کھڑے ہوتے ہیں اور آتی جاتی گاڑیوں پہ ہوٹنگ کرتے ہیں۔کسی علاقے کے لوگ وہاں کی پہچان ہوتے ہیں بے شک اچھے برے لوگ ہر جگہ ہوتے ہیں مگر اگر آپ اپنے علاقے کو بہترین ٹورسٹ پلیس بنانا چاہتے ہیں تو اپنے اخلاق پہ بھی نظر ثانی کریں۔آپ تین ہزار کا کمرہ پندرہ ہزار میں بھی دے سکتے ہیں، بیس روپے کا چائے کا کپ سو روپے میں بیچ سکتے ہیں مگر آپ دوسروں کے لیے منافع خوری نہ کر کے، آفت زدہ لوگوں کی مدد کر کے بھی مثال قائم کر سکتے ہیں۔گیند آپ کے کورٹ میں ہے۔آپ اپنی ذمہ داری نبھانے کا عہد کریں بقیہ مشیت ایزدی سے مقابلہ کرنا کسی کے بس میں نہیں۔