ماضی کے بوجھ سے نجات پایئے

آپ کون ہیں —–؟۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔آپ کیا ہیں —–؟

غالبًا ان سوالوں کا جواب دینے کیلئے آپ اپنے ماضی کی طرف رجوع کریں گےـ بیتے ہوئے دنوں کو یاد کرینگے- ان کے بوجھ سے نجات د شوار معلوم ہوتی ہے —- خیر، ممکن ہے آپ چند دوسری باتوں کا ذکر بھی کریں- مثلًا میں بہت محنتی ہوں – فلاں جگہ کام کرتا ہوں ، فلاں جگہ رہتا ہوں، میں موسیقی کا رسیا ہوں، آزادی کا دلداداہ ہوں، مطالعہ کا شوقین ہوں، ملنسار ہوں، وغیرہ – تاہم اس باب میں ہم ان صفات کو زیر بحث لانے کا ارادہ نہیں رکھتے – یہ خوبیاں اپنی جگہ بہت اہم ہیں – قابل قدر ہیں – لیکن ان امور پرروشنی ڈالنا چاہتے ہیں جو مزید آگے بڑھنے میں آپ کی مدد کرسکیں –

ہمارے معاشرے میں درجہ بندی کا رجحان تیزی سے بڑھ رہا ہے – کسی صاحب کا ذکر ہو تو فوراً کہا جائے گا کہ اجی چھوڑیئے وہ تو پکا سرخا ہے ،، یا بھئ وہ تو کٹر اسلا م پسند ہے یا تو بڑا مولوی ہے وغیرہ – اس قسم کے جملے ہر روز سنتے ہیں – اس درجہ بندی میں بظاہر کوئی برائی نہیں – لیکن غور سے دیکھئے تو یہ فرد کی نشوو نما اور ترقی کی راہ میں رکاوٹ بن سکتی ہے — مشہور وجودی فلسفی سور بن کرکیگارڈ نے اسی لیے ایک بار کہا تھا کہ : مجھے کسی کھاتے میں ڈالنے کا مقصد میری نفی کرنا ہے – ہوتا یہ کہ لیبل لگ جانے کے بعد فرد لاشعوری طور پر اس سے چمٹے رہنے کی کی خواہش کرتا ہے یوں لیبل باقی رہ جاتا ہے ، شخصیت مسخ ہوجاتی ہے فرد اپنے اس اعزاز کو بچانے کی سر توڑ کوشش کرتا ہے . اس سے متعلقہ کردار اپناتا ہے اور ہر موقع پر خود کو اس کے اہل ثابت کرنے کی دھن سر پر سوار کر لیتا ہے –

یہ لیبل فرد کے ماضی سے اخذ کیے جاتے ہیں – لیکن جناب ماضی تو محض راکھ کا ڈھیر ہے – اسے کریدنے سے کیا حاصل ہوگا ؟ آئیے دیکھیں آپ کس حد تک ماضی کے باجھ تلے دبے ہوئےہیں – میں فلاں فلاں ہوں جملے بنیادی طور مندرجہ ذیل چار احمقانہ جملوں سے اخذ کیے جاتے ہیں :

(۱) میں وہ ہوں -،

(۲) میں ہمیشہ ویسا ہی رہا ہوں –

(۳) میں اس کے بغیر رہ نہیں سکتا –

(۴) میری فطرت ہی یہی ہے –

یہ ہیں وہ رکاوٹیں جو کسی نا کسی انداز میں آپ کی ترقی میں اور نشوونما کی رہ میں حائل ہیں – آپ کو آگے بڑھنے سے روکتی ہیں – حرکت کی بجائے جمود پیدا کرتی ہیں – اس لیے یہ زندگی کی بدترین دشمن ہیں – نئے نئے تجربوں اور نو بنو مسرتوں کی قاتل ہیں –

دادی اماں کو خدا جوار رحمت میں جگہ دے – ان کی عادت تھی کہ گھر کے ہر فرد کو مقررہ مقدار میں کھانا دیتی تھیں – بڑے میاں کیلئے دو چپاتیاں اور شوربے کی ایک پلیٹ – بہو رانی کیلئے صبح دو توس اور آملیٹ – بچوں کیلئے پھلوں کی مقدار بھی طے شدہ تھی – جب پوچھئے کہ دادی اماں یہ تکلیف کیوں ؟ ان کاجواب ہمیشہ ایک ہی تھا —- میری ہمیشہ سے عادت یہی ہے – یہ جواز خود انہوں نے اپنی سر گزشت سے اخذ کر رکھا تھا – اس سے انحراف گناہ کے زمرے میں داخل تھا –

دادی اماں پر کیا ہی موقوف ہے – ہم سے اکثر لوگ یونہی اپنے اپنے ماضی کا بارگراں کندھوں پر لادے پھرتے ہیں – کمر میں زخم آجاتا ہے لیکن بوجھ سے پیار بڑھتا ہے – گویا بوجھ نا رہا تو زندگی میں کوئی بڑا خلاء پیدا ہو جائے گا —– شاید زندگی ہی باقی نا رہے –

میں فلاں فلاں ہوں بیانات کی اساس ماضی کے کسے تجربے پر ہوتی ہے – جب بھی مندرجہ بالا چار جملوں میں سے کوئی ایک استعمال کیا جائے کہ درحقیقت اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ :

“میری دلی خواہش ہے کہ میں پہلے کی طرح رہوں – “

آپ چاہیں تو آپ کو ماضی سے باندھنے والی زنجیریں ٹوٹ سکتی ہیں – مردہ اور جامد کر دینے والے بے فائدہ جملوں سے رہائی بھی مل سکتی ہے – ذیل میں ہم “میں فلاں ہوں فلاں ہوں ” کی قسم کی جملوں کی ایک فہرست درج کر رہے ہیں – ممکن ہے آپ بھی اپنا ذکر کرتے ہوئے ان میں سے اکژ جملے استعمال کرتے ہوں –

میں شرمیلا ہوں میں تنہائی پسند ہوں میں بزدل ہوں میں گرم مزاج ہوں

میں سست ہوں میں غصیلا ہوں میں خو ف زدہ ہوں میں لاپرواہ ہوں

میں بے ڈول ہوں میں غیر ذمہ دار ہوں

میں نازک مزاج ہوں میں حاضر دماغ ہوں میں اداس رہتا ہوں میں مذہبی ہوں

یہ فہرست بہت مختصر ہے – پھر بھی ممکن ہے کہ اس میں بعض جملے آپ پر لاگو ہوتے ہوں – مسئلہ یہ نہیں کہ آپ کون سا لیبل منتخب کرتے ہیں – بلکہ دیکھنا یہ ہے کہ آپ کوئی لیبل خود پر چسپاں کرتے کیوں ہیں ؟ دوسرے لفظوں میں یوں کہئے کہ اصل مسئلہ یہ ہے کہ آپ اپنی بے کراں شخصیت کو بند کرتے ہیں ؟ دریا کو کوزے میں بند کرنا محاورتاً تو ٹھیک ہے – لیکن اگر کوئی ستم ظریف کوزہ لیکر دریا کے کنارے جا بیٹھے اور دریا کو اس میں بند کرنے کی کوشش کرے تو آپ اسے کیا کہیں گے ؟ یقین مانئے اگر وہ شخص کامیاب ہوجائے تب بھی شخصیت کو لیبل کے کوزے میں بند کرنا دشوار ہے اس کی ایک ہی راہ ہے شخصیت کے ٹکڑے ٹکڑے کیجئے – اسے مسخ کیجئے – رواں دواں سمندر کی بجائے اسے ننھی منھی گندی نالی بنا دیجئے اب وہ آپ کیلئے مناسب ہے لیبل چسپاں کیجئے اور دل بہلائیے –

لیکن کیوں ؟ شخصیت کے جن کو کیڑا مکوڑا بنا کر بوتل میں کیوں ٹھونسا جائے ؟ آیئے ہم اس رویے کا سبب تلاش کریں –

اکژ لوگ تن اسانی اور کاہلی کی بنا پر لیبل چسپاں کرنے کےعادی ہوتے ہیں – جہاں کسی پر کوئی لیبل لگا کر اسے وہی سمجھ لیا گیا اب اس کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنے یا غورو فکر کرنے کی ضرورت نہ رہی آدمی آپ کے لیبل کے شکنجے میں پھنسا تو وہ آپ کے قابو میں ہے مزید سر درد لینے کی کیا ضرورت ہے ڈی – ایچ لارنس نے اپنی ایک نظم میں لیبل چسپاں کرنے کے عمل کی لغویت کا نقشہ کھینچا ہے – نظم کا عنوان ہے وہ کیا ہے ،:

وہ کیا ہے

—— ظاہر ہے وہ ایک انسان ہے

ہاں مگر وہ کرتا کیا ہے

——– وہ رہتا سہتا ہے اور ایک انسان ہے

اچھا خیر مگر کوئی کام کرتا ہوگا کسی جگہ ملازم ہوگا ———- کیوں ؟

اسلیے کہ وہ کھاتے پیتے طبقے سے دکھائی نہیں دیتا ——– مجھے معلوم نہیں – مگر اس کے پاس خاصی فرصت ہے علاوہ ازیں وہ خوبصورت کرسیاں بھی بناتا ہے یہ ہوئی نا بات وہ ترکھا ن ہے

——— نہیں صاحب ہر گز نہیں بہر طور وہ ایک کاریگر ہے ——– بلکل نہیں مگر تمھاری باتوں سے تو یہی تاثر ملتا ہے —— کیا کہا ؟ —– میں نے کیا کہا ہے ؟

یہی کہ وہ کرسیا ں بناتا ہے اور ترکھان ہے

—- میں نے کرسیاں بنانے کی بات کی تھی – یہ نہیں کہاتھا کہ وہ ترکھان ہے اچھا اچھا وہ شوقیہ کرسیاں بناتا ہے —– شاید —— یہ تو بتائیے کہ بلبل شوقیہ گاتی ہے یا پیشہ ور گائیکہ ہے میں تو صرف اسے پرندہ کہوں گا

میں اسے صرف ایک پرندہ ہی کہوں گا —- میں نے تو صرف اسے ایک انسان ہی کہا تھا خیر میاں بہانہ سازی کوئی تم سے سیکھے لیبل دو قسم کے ہوتے ہیں پہلی قسم کے لیبل دوسرے لوگوں کی عطا ہوتے ہیں – بچپن میں آپ پر چسپاں کیے جاتے ہیں دوسری قسم کے لیبل وہ ہوتے ہیں جو آپ محفوظ رہنے کی خاطر منتخب کیے ہیں – ان دو قسموں میں سے اول الذکر زیادہ مقبول ہیں —- چند روز ہوئے ایک خاتون نے اپنی رام کہانی سنائی تھی اسے مصوری سے بہت لگاؤ تھا روز بروز وہ رنگ اور برش لیے تصویریں بنانتے کیلئے ایک اسکول میں چلی جاتی تھی جلد ہی اس کی امنگو ں پر اوس پڑ گئی اس کی استانی کہنی لگی آپ کی بس کی بات نہیں ہے -بہتر ہے کوئی اور کام تلاش کرو امنگ بھری خاتون کےلئے یہ چرکہ کافی تھا اس کا دل اچاٹ ہوگیا اب وہ اکثر دہراتی میں اچھی مصورہ نہیں ہوں خیال رہے کہ اس قسم کہ اکثر لیبل ہمیں دوسروں سے عطا ہوتے ہیں – وہ ہمیں صلاحتیوں سرسری اور غیر ہمددردانہ جائزہپ لیتے ہوئے لاپرواہی سے کام لیتے ہیں –

بہتر ہےکہ آپ لیبل عطا کرنوں والے لوگوں سے میل جولی بڑھائیں – ان سے پوچھئے کہ آپ نے موجودہ عادات و اطوار کب اور کیسے سیکھیں یا آپ ہمیشہ سے ایسے رہے ہیں انہیں یہ بھی بتا دیں کہ آپ نے خود کو بدلنے کا تہہ کر لیا ہے دوسری قسم کے لیبل آپ نے تن آسانی کی خاطر آپنے اوپر چسپا ں کر رکھے ہیں – ہمارے ایک پچاس سالے دوست کو کالج داخلہ لینے کے بڑے ارمان تھے بات ہے کہ وہ بعض خاندانی مسئلے کی وجا سے وہ تعلیم حاصل نہیں کرسکا ناکامی کی وجا سے اپنے خواہش کی بنا پر وہ کئی بار داخلہ لینے کی کوشش کی لیکن ہر بار ناکام ہو جا تا کالج پڑھنے کے اہل نہیں ہمارے اس دوست نے ان باتوں کو ڈھال بنا رکھا ہے ظاہر ہے اس کی خواہش جدوجہد اور تگ و دو متقاضی ہے اس سے بچنے کیلئے اس نے مختلف بہانے بنائے ان بہانوں کی وجا سے وہ خود کو فریب دیتا رہتا ہے یہ بہانے —— لیبل —– نقصان دہ ہیں وہ نا صرف ایک حقیقی تکمیل کی خواہش میں رکاوٹ بنتے ہیں بلکہ فرد کی نشونما اور ترقی کی رہ بھی مسدوس کر دیتے ہیں حرکت اور تخلق کے بجائے جمود اور موت پیدا کرتے ہیں –

حصہ
mm
نوید احمد جتوئی کراچی یونیورسٹی کے شعبہ بین الاقوامی تعلقات عامہ میں آخری سال کے طالب علم ہیں لکھنے کا شوق، حالات حاضرہ میں نظر رکھتے ہیں، جبکہ سوشل میڈیا میں متحرک ہیں۔ روزنامہ جسارت کی ویب ڈیسک پر خدمات انجام دے رہیں ہیں۔