کراچی “پاکستان کا دل ہے” یہ الفاظ ہماری دوست کے جیٹھ جو کہ پشاور کے رہائشی اور پشاور ایگریکلچر یونیورسٹی کے پروفیسر تھے ان کے تھے ،کوسوں دور بیٹھے یہ صاحب کراچی کی اہمیت کو جانتے ہیں پر جانے نہ جانے گل ہی نہ جانے باغ تو سارا جانے ہے والا معاملہ سندھ کی حکمراں جماعت پر پورا اترتا ہے-
کراچی جس سے پورے ملک کی معیشت کا پہیہ چلتا ہے،پیپلز پارٹی اس پہیہ کو جام کرنے میں لگی ہوئی ھے اس شہر کو اپنے بیگانے سب نے بری طرح لو ٹا اس کو میگاسٹی اور نیویارک بنانے کے تو بہت خواب دیکھائے گئے پر عمل رتی برابر نہ ہوا حکمراں جماعت اور مقامی اپنی ہی تجوریاں بھرنے میں لگے رہے اور آج بھی اس سونے کی چڑیا کو نوچنے میں مصروف ہیں ان کا پیٹ بھر ہی نہیں رہا اب انہوں نے سندھ اسمبلی سے ایک نیا بلدیاتی قانون پاس کرا لیا جو کہ کراچی کی عوام کے لیے” کالا قانون” کی حیثیت رکھتا ہے۔
،سارے اداروں پر قبضہ کر کے کراچی عوام دشمنی میں ان کے حقوق پر غاصبانہ قبضہ کر کے ان کو بے یارو مددگار کر دینا یہ ہے ان کا مشن ،سمجھ نہیں آرہا یہ ایسا کیوں کر رہے کون سی دشمنی نکال رہے کراچی کے ساتھ ہمارے سندھ کے وزیر اعلیٰ صاحب جن کی ساری زندگی کراچی میں گزری وہ بھی کراچی دشمنی میں بول پڑے کہ سندھ وفاق کو پچھتر فیصد ریونیو دیتا ہےصرف کراچی کانام لینے میں ان منہ پر گوند لگی ہوئی تھی ان کے یہ الفاظ دل پر نشتر بن کر چبےاللہ ان کو ہدایت دے۔
سمجھ نہیں آتا کراچی کا مقدمہ کس کے پاس لے کر جائیں وزیراعظم صاحب جو کہ صرف دو صوبوں کے وزیر اعظم ہیں ان سے شنوائی کا کوئی فائدہ نہیں، رہے صدر صاحب بقول ان کے وہ خالی کرا چی کے صدر نہیں پورے ملک کے صدر ہیں اب ان سے بھی کیا کہا جائیں خیر پیپلز پارٹی کے بلاول سمت سارے رہنما یہ بات اچھے سے سمجھ لیں کہ کراچی عوام دشمنی پر مبنی یہ “کالا قانون” کسی طور پر قبول نہیں کیا جائے گا-کراچی میں بسنے والے تمام طبقوں کو چاہیے کہ اس بل کہ خلاف سڑکوں پر آئیں اور جو واحد جماعت اس بلدیاتی بل (کالا قانون)کے خلاف آہنی دیوار بن کر کھڑی ہے اس کا ساتھ دیں یاد رکھے یہ واحد جماعت ہے جو کرپشن سے پاک ہے جس کا مقصدِ “لوگوں کی خدمت اور خیر خواہی ہے”