مری کو پاکستان کا اہم سیاحتی مقام سمجھا جاتا ہے اور پورے ملک سے لوگ یہاں سیر و تفریح کیلئے آتے ہیں لیکن گزشتہ ہفتے برف کے ایک طوفان کی وجہ سے مری میں افسوسناک صورتحال سامنے آئی۔نئے سال کے آغاز میں جو پہلا سانحہ رونما ہوا وہ مری میں سیاحوں کی اموات ہے۔جو کسی اذیت سے کم نہیں۔مری سیروسیاحت کے حوالے سے بہترین جگہ تو ہے لیکن ہرجگہ جانے کے لیے حفاظتی اقدامات بھی لازم ہیں۔مری میں حالات و واقعات کا کوئی ایک ذمہ دار نہیں ہے۔اس سانحہ کے پیش آنے کی چند وجوہات جن میں حماقت، جہالت، انتظامیہ، حکومت کی نااہلی اور انسانیت کا فقدان شامل ہیں۔
انسان خطا کا پتلا ہے لیکن کبھی کبھی اسکی چھوٹی سی غفلت بڑے حادثے کا سبب بن جاتی ہے۔انسان کی حماقت ہےکہ قدرتی طوفان اُس کا کیا بگاڑ لے گی۔جو بنا حفاظتی تدابیر اور الرٹ جاری ہونے کے باوجود بھی سیروسیاحت کو نکل پڑا۔یااپنے طاقتور ہونے کی حماقت کہ موسم خراب ہونے کے باوجود بھی اس جانب نکل پڑے۔یہ ہی غفلت نے ان کو موت کی نیند سلا دیا۔فرمان الہٰی ہے:
الهكم التكاثر حتی زرتم المقابر (القرآن)۔۔۔۔۔۔زیادہ کی چاہت نے تمہیں غفلت میں ڈال رکھا ہے یہاں تک کہ تم قبروں میں آ پہنچو گے ۔
یہ درست ہے کہ قدرت کے سامنے کسی کا بس نہیں چلتا اور قدرتی آفات کو روکنا ممکن نہیں ہے۔اس کے بعد سانحہ مری کے حالات واقعات کی وجہ جہالت اور انتظامیہ ہے جو ایسا سانحہ رونما ہوا۔ سانحہ مری نہ حکومت کے ماتحت انتظامیہ وقت پر جاگی اور نہ خوبصورت وادی میں رہنے والے لوگوں کے ضمیر بیدار ہوئے۔ لاکھوں گاڑیاں پہنچیں تو معاشی کامیابی٫حالات کنٹرول نہ ہوئے تو حادثے کے زمہ دار سیاح۔سانحہ مری کا ذمہ دار ضلعی انتظامیہ ہے ۔
امریکا جاپان یورپی ممالک اور دنیا کے باقی ممالک میں بھی اس سے زیادہ برف باری ہوتی انتظامیہ عوام کے لئے راستے کلیر کرتے ہیں انکو لاوارث نہیں چھوڑ دیتے ۔اور ہوٹل مافیا 1کمرے کا ریٹ 25000۔50000 نہیں کرتے ضلعی انتظامیہ اس سانحہ کی ذمہ دارہے۔سرمایہ اور انسان بن چکے ہیں۔کسی شاعر نے کہا تھا:
کس کس کے آستاں پہ جبیں کو جھکائیں ہم
ہر شخص بن گیا ہے خدا تیرے شہر میں
مری میں زیادہ اموات ہوٹل والوں کے زیادہ کرایہ مانگنے پر بھی ہوئیں ایک کمرے کا 25 ہزار ڈیمانڈ کی جس کی وجہ سے اکثر سیاحوں نے گاڑیوں میں رات گزارنے کو ترجیح دی۔یقینا ہلاکتوں کی ایک وجہ ’’کاربن مونو آکسائیڈ(CO Gas)‘‘ہے،ایک بو (Smell)کے بغیر گیس ہے۔
ان ہوٹل مالکان کے خلاف سخت کاروائی کی جائے۔اس سانحہ کی بڑی وجہ انسانیت کا فقدان بھی ہے ۔ مری میں کاروبار کرنے والوں میں انسانیت نام کی کوئی چیز نہیں ھمیشہ سے سیاحوں کے ساتھ ایسا ہی برا سلوک ہوتا آرہا ہے۔مسئلہ یہ نہیں کہ مری والوں نے سیاحوں کو مال غنیمت کی طرح لوٹا۔ مسئلہ تو یہ ہے کہ ہم اس سب کے باوجود مری جاتے ہیں۔ ہم بطور قوم ہی اپنی ذلت سے کوئی سبق نہیں سیکھتے۔سانحہ مری بحیثیت قوم ہماری عکاسی کرتا ہے کہ ہم بحیثیت قوم کیسے ہیں مقامی افراد پھنسے ہوئے لوگوں کی مدد کر سکتے تھے۔مجبوری کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ریٹس بڑھائے گے جس نے انسانیت مرتی دیکھی گئی۔
اس سانحہ سے چند سوالات ذہن میں ابھرتے ہیں۔
محکمہ موسمیات نے مری کے حوالے سے کئی وارننگز جاری کیں، اس کے باوجود کیا متعلقہ محکموں نے جوائنٹ ایکشن پلان ترتیب دیا؟
کیا اتنی بڑی تعداد میں گاڑیوں اور سیاحوں کو سنبھالنے کے لیے کوئی پالیسی ترتیب دی گئی؟
گنجائش سے زائد سیاحوں کو روکا کیوں نہیں گیا،کیوں سب کو موت کی برفیلی وادی میں جانے کی کھلی اجازت دیدی گئی؟
عوام کو مری کا سفر کرنے سے روکنے کے لیے کوئی سفری ہدایات اخبار، ٹی وی یا سوشل میڈیا پر جاری کی گئی تھیں یا نہیں۔ صورتحال قابو سے باہر ہونے پر اسلام آباد اور گلیات میں انٹری پوائنٹس پر گاڑیوں اور سیاحوں کو جانے سے کیوں نہیں روکا گیا؟؟
مری میں ٹریفک کا نظام بحال رکھنا کس کی ذمہ داری تھی؟
افسوس، ساری رات ہزاروں گاڑیوں میں بند لاکھوں لوگ برف کے طوفان میں پھنسے رہے۔
اس سانحہ کی ذمہ دارحکومت بھی ہے۔’سیاحت کی ترقی صرف دلفریب مناظر ٹویٹ کرنے سے کہیں بڑھ کر ہے، جس میں حفاظت، تحفظ، خدمات، بنیادی ڈھانچہ، آفات سے نمٹنے کی حکمتِ عملی اور بہت کچھ شامل ہے مگر نکمی حکومت صرف الیکشن انویسٹرز کو لوٹ مار کے مواقعے دینے کے سوا ترجیح کچھ نہیں۔اس سارے قصے کا مختصر ترین بیان یہ ہے کہ مرکزی حکومت صوبائی حکومت اور مری کے ذمہ دار ادارے عیاشیاں کرتے رہے اور بے بس عوام معصوم بچوں سمیت برف باری کے نیچے دب کر تبدیلی کے سہانے خوابوں کے سحر میں ابدی نیند سو گئے۔حکومتِ وقت اپنی ذمہ داری کسی اور پر نہیں ڈال سکتی۔ مری سانحہ غفلت، لاپرواہی اور حکومتی اداروں کی نااہلی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ خاص طور پر جس انداز میں حکومتی وزرا نے اس معاملے پر میڈیا سے بات کی اور ڈیفینڈ کرنے کی کوشش کی، اس قسم کی حرکتوں کو کوئی بھی درد یا احساس رکھنے والا انسان کبھی پسند نہیں کرے گا۔ اللّہ تعالیٰ متاٽرہ افراد اور انکے خاندانوں پر رحم و کرم فرماۓ، آمین۔
روئے، چیخے، کانپے، تڑپے، آہ بھر کے مر گئے
کتنے سپنے برف خانے میں ٹھٹھر کے مر گئے
دوش دیتے کس کو اپنے قتل کا معصوم لوگ
خود پہ اپنی موت کا الزام دھر کے مر گئے