کاربن اہداف کا حصول اور گرین مستقبل

چین کی جانب سے موسمیاتی تبدیلی کے مسئلے سے نمٹنے کے لیے دو اہم اہداف طے کیے گئے ہیں جن میں سال 2030 سے پہلے کاربن پیک اور اسی طرح 2060 تک کاربن نیوٹرل کے حصول کا عزم ظاہر کیا گیا ہے۔ماہرین کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ چین کے لیے ان اہداف کو حاصل کرنے کی خاطر ایک مضبوط بنیاد رکھنا بالکل ایسے ہی ہے جیسے ایک دیوقامت فلک بوس عمارت کی تعمیر کے دوران ٹھوس بنیاد رکھی جاتی ہے، لیکن چین نے اس کٹھن مقصد کے حصول کی خاطر خاطر خواہ تیاریاں کی ہیں اور مزید اقدامات کا ایک مستقل سلسلہ جاری ہے۔چینی قیادت واضح کر چکی ہے کہ ملک کی اعلیٰ معیار کی ترقی کو آگے بڑھانے کے تناظر میں کاربن اہداف کے حصول کو ”غیر متزلزل” طور پر فروغ دیا جائے گا۔ تاہم،یہ کام اتنا آسان نہیں کہ جسے صرف ایک جھٹکے میں ہی مکمل کیا جا سکے۔

اسی لیے چین نے ماحولیاتی تحفظ کو مرکزی اہمیت دیتے ہوئے ملک بھر میں گرین ہاوس گیسوں کے اخراج میں کمی، فضائی آلودگی کی روک تھام،حیاتیاتی تنوع اور ماحولیاتی انحطاط کے مسائل سے نمٹنے کے لیے اہم اقدامات متعارف کروائے ہیں۔صنعت سازی کے میدان میں دنیا کے لیے فیکٹری کا درجہ رکھنے والے چین نے حالیہ عرصے میں ملک میں کاربن ٹریڈنگ مارکیٹ بھی لانچ کی ہے۔چین جیسے بڑے ملک میں اس ماحول دوست پیش رفت کو اہم انوویشن قرار دیا جا رہا ہے جس کے تحت کاربن ٹریڈنگ مارکیٹ سے استفادہ کرتے ہوئے گرین ہاوس گیسوں کے اخراج میں کمی میں مدد ملے گی۔اس کاوش میں چین کے مالیاتی ادارے بھی شامل ہیں جو کاربن اخراج میں کمی کے لیے بینک کرنسی سے متعلق پالیسی سازی کو آگے بڑھا رہے ہیں تاکہ اس مقصد کے حصول کی خاطر زیادہ سے زیادہ مالیاتی حمایت فراہم کی جا سکے۔

چین کی کوششوں کا عالمی سطح پر بھی اعتراف کیا گیا ہے اور ”ناسا” کی سترہ برس تک جاری رہنے والی ایک تحقیق میں یہ بات سامنے آئی کہ سال 2000سے سال 2017 تک دنیا بھر میں قائم شدہ نئے گرین علاقوں میں سے ایک چوتھائی چین نے تعمیر کیے ہیں لہذا چین اس اعتبار سے دنیا میں سرفہرست ہے۔چین کی کوشش ہے کہ آئندہ پانچ برسوں کے دوران کم کاربن پر مبنی شہری و دیہی ترقی کو فروغ دیا جائے، پائیدار ٹرانسپورٹ نظام کے تحت گرین شہر آباد کیے جائیں،ماحول دوست اسمارٹ عمارتیں اور قابل تجدید توانائی کے ذرائع استعمال کیے جائیں۔اس ضمن میں گرین مصنوعات اور گرین ترقی کے لیے سازگار پالیسیاں ترتیب دی جا رہی ہیں جن میں گرین ٹرانسپورٹ،گرین کمیونیٹیز وغیرہ اہم اقدامات ہیں۔ اس جدوجہد میں نئی شفاف توانائی کی گاڑیوں کی مانگ میں اضافہ، کم کاربن بجلی کی پیداوار،گرین ڈویلپمنٹ فنڈ کا آغاز، گرین فنانس کی سہولت، نقل و حمل، عمارتوں اور مینوفیکچرنگ جیسے اہم شعبوں میں توانائی کی کارکردگی کو بہتر بناتے ہوئے اسمارٹ ٹیکنالوجیز کے لئے نئے مواقعوں کی فراہمی سمیت کاروباری اداروں میں ماحولیاتی تحفظ سے متعلق شعور اور آگاہی نمایاں عوامل ہیں۔

کاربن اہداف کے حصول کی خاطر چین کی کوششیں توانائی کی کھپت کو محدود کرنے اور توانائی کی شدت کو کنٹرول کرنے یا جی ڈی پی کے فی یونٹ توانائی کی کھپت پر مرکوز ہیں۔اس ضمن میں پانچ سالہ منصوبوں میں طے شدہ قومی اہداف کے علاوہ، ہر صوبائی سطح کے علاقے کے لیے مخصوص اہداف طے کیے جا رہے ہیں، اور مختلف شعبوں میں کارکردگی کا باقاعدگی سے جائزہ لیا جارہا ہے۔یہ فیصلہ بھی کیا گیا کہ قابل تجدید توانائی اور خام مال کے لیے استعمال ہونے والی توانائی کو، توانائی کی کل کھپت کی حد سے باہر رکھا جائے گا۔یہ بات قابل زکر ہے کہ اس وقت ملک میں تخفیف کاربن ڈائی آکسائیڈ کی خاطر کول کیمیکل اور پیٹرو کیمیکل سیکٹر میں استعمال ہونے والے 80 فیصد ایندھن کو عام طور پر خام مال میں تبدیل کیا جارہا ہے۔یہی وجہ ہے کہ چین کی غیر فوسل توانائی کی ترقی کو بڑا فروغ مل رہا ہے۔ اس وقت چین کی غیر فوسل توانائی، بنیادی توانائی مکس کا تقریباً 16 فیصد ہے۔ چین کی کوشش ہے کہ کاربن کے اخراج کو محدود کرنے اور کاربن کی شدت کو کم کرنے کے لیے جس قدر جلد ممکن ہو سکے سازگار حالات پیدا کیے جائیں۔ان اقدامات کا مقصد کاربن ڈائی آکسائیڈ کے علاوہ، دیگر گرین ہاؤس گیسوں کو بھی کنٹرول کرنا ہے۔

یہاں اس حقیقت کا ادراک بھی لازم ہے کہ چین نے حالیہ عرصے میں تحفظ ماحولیات اور موسمیاتی تبدیلی کو اپنی پالیسی سازی میں نمایاں اہمیت دی ہے۔ چین نے اپنے 12ویں پانچ سالہ منصوبے (2011۔2015) کے دوران توانائی کی شدت کو کم کرنے کے لیے توانائی کی کھپت کی حد اور اہداف متعارف کروائے تھے۔ تا حال، اس نقطہ نظر نے ملک میں توانائی کے تحفظ میں اہم کردار ادا کیا ہے، جس کا بہت زیادہ انحصار تیل اور قدرتی گیس کی درآمدات پر ہے۔ اعداد و شمار کے مطابق 2013 تا 2015 کے درمیان توانائی بچت کے ان اقدامات کی عدم موجودگی میں، ملک میں بجلی کی کھپت میں 800 ٹیرا واٹ فی گھنٹہ سے زائد کا اضافہ ہوتا،جبکہ اس کے مقابلے میں 259 ٹیرا واٹ فی گھنٹہ کی حقیقی نمو رہی۔یوں توانائی کی کھپت کو محدود کرنے اور توانائی کی شدت کو کنٹرول کرنے سے چین مؤثر طور پر کاربن ڈائی آکسائیڈ پیک کی جانب جا رہا ہے جو کاربن نیو ٹرل کے حصول میں بھی انتہائی مددگار ہے۔

چین کی یہ خوبی بھی اسے دوسری طاقتوں سے ممتاز کرتی ہے کہ وہ ترقی پذیر ممالک کی موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنے کے لیے صلاحیتوں کو بڑھانے میں بھی معاون رہا ہے۔ چین نے متعدد ممالک میں کم کاربن پائلٹ صنعتی پارکس قائم کیے ہیں،تخفیف کاربن کے حوالے سے درجنوں پروگرام شروع کیے ہیں، اور ترقی پذیر ممالک میں موسمیاتی تبدیلی سے متعلق تعاون کو آگے بڑھانے کے لیے بے شمار تربیتی کورسز کا انعقاد کیا ہے تاکہ یہ ممالک بھی صاف اور کم کاربن توانائی سمیت دنیا کے ساتھ مل کر مشترکہ طور پر عالمی موسمیاتی تبدیلی کے مسئلے پر توجہ دے سکیں۔ موسمیاتی تبدیلی کے ردعمل نے گرین صنعتی انقلاب کا ایک نیا دور شروع کیا ہے، اور تمام ممالک کا چین کی پیروی کرتے ہوئے روایتی صنعتوں کو گرین صنعتوں میں ڈھالتے ہوئے اس موقع سے فائدہ اٹھانا یقیناً ایک محفوظ گرین مستقبل کی ضمانت ہے۔