سولہ دسمبر کو گزرے ابھی ایک مہینہ ہی ہوا ہے سارے پاکستان نے سقوط ڈھاکہ کو یاد کیا زخم پھر سے ہرے ہوۓ ۔ ایک اور بڑا سانحہ اسی تاریح کو یاد کیا آرمی پبلک اسکول سانحہ کے شہیدوں کو یاد کر کے دل بوجھل ہوا، ہم ماضی کو کیوں یاد کرتے ہیں، بھول کیوں نہیں جاتے تلخ یادوں کو۔صرف اس لۓ کہ جو قومیں اپنے ماضی کو اپنی نئ نسل کے سامنےیاد کرتی ہیں ان کی نئی نسل اس سے سبق حاصل کر کے اپنا مستقبل سنوارنے کی کوشش کرتی ہیں۔سقوط ڈھاکہ کو یاد کرتے ہوئے میرے ذھن میں ایک شعر گردش کرنے لگتا ہے،،،،،،،،،،،،
ہمیں تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا
ہماری کشتی تو وہاں ڈوبی جہاں پانی کم تھا۔
ساری تمہید کا مقصد یہ ہے کہ آج میرے کراچی کو پھر ایسے ہی دشمنوں کا سامنا ہے جن کے ذاتی مفاد کی وجہ سے ملک دو ٹکڑے ہوا تھا۔ سارے پاکستان کو معاشی ترقی دینے والا شہر آج خود یتیم بچے جیسی زندگی گزار رہا ہے جس سے کام تو سب لیتے ہیں مگر اس کے سر پر ہاتھ رکھ کر اس کی ذمہ داری لینے کو کوئی تیار نہیں ہوتا ۔گیس بجلی پانی سے محروم ٹینکر مافیا چأینا کٹنگ سے لڑتی اس شہر کی مظلوم عوام اور شہر مدینہ کی ریاست بنانے کا دعویٰ کر کے اقتدار میں أنے والے حکمراں اج مدینہ مسجد شہید کرنے کا اعلان کر رہے ہیں ۔
ان ساری مشکلات سے نبرد آزما عوام پر سندھ گورنمنٹ نے حال ہی میں کالے قانون کا بل پاس کر کے ایک اور بم دے مارا ہے جس کے بعد تو شہر کے حالات سدھرنے کی امید دم توڑتی نظر ارہی تھی ۔پھر سننے میں أیا کہ ایک جماعت سندھ اور کراچی کے حقوق کی جدوجہد کرنے کے لۓ دھرنا دے رہی ہے ۔ ہمارے بکے ہوئےمیڈیا نے دھرنے کو ایسی کوریج دی جیسا کہ ہم سب کے کھانے کے بعد بچا کچھا سالن اپنے گھر کی ماسیوں کو دینے کے لے اپنا دل بڑا کرتے ہیں۔ حالانکہ اسی میڈیا نے ڈی چوک اسلام آباد کے دھرنے کو بڑھا چڑھا کرعوام تک پہنچایا تھا کیونکہ وہاں کے دھرنے میں رنگینیاں بہت تھیں ڈی جے بلائے گئے تھے ،روزانہ رقص و سرور پیش کئے جاتے تھے۔
جبکہ جماعت کے دھرنے میں با جماعت نمازیں ادا کی جا رہی ہیں، ترانے پڑھے جا رہے ہیں تو ہمارے میڈیا کو تو ریٹنگ چاہیئے جو ناچ گانے والے دھرنوں سے ملتی ہے شریفانہ احتجاجی دھرنوں سے نہیں۔ غریدہ فاروقی صاحبہ ڈی چوک کے دھرنے کی کوریج کرین اور کنٹینر پر لٹک کر کیا کرتی تھیں کراچی کے دھرنے میں تو ان کی پرچھائیں بھی نظر نہیں أئی۔کراچی ستر فیصد ریونیو کما کر دینے والا شہر ہے اگر اسے بے موت مارنا ہی ہے تو بھی اتنی خاموشی تو اختیار نہ کریں جنازہ تو دھوم سے نکا لیں دنیا کو پتا تو چلے کہ ایک شہر کراچی تھا جو لوگوں کے ذاتی مفاد کی خاطر اپنی قربانی دے کر گیا ہے۔