ناچ نہ جانے

وزیرِ اعظم عمران خان ہر فورم پر جو بات کہتے چلے آ رہے ہیں اس کی حقانیت سے کوئی بھی ذی شعور انکار نہیں کر سکتا۔ حکومت میں آنے سے قبل اور حکومت بنا لینے کے فوراً بعد انھوں نے جس عزم کا اظہار کیا تھا ان میں چند اہم اقدامات میں ہر قسم کی مافیاؤں کا قلع قمع کرنا، پاکستان کے عوام کی خون پسینے کی کمائی کو لوٹ کر ملک سے باہر منتقل کرنے والوں کا سخت محاسبہ کرکے نہ صرف لوٹی ہوئی دولت واپس لانا بلکہ ایسے چوروں کو نشانِ عبرت بنانا اور ملک میں قانون کی حکمرانی کو بہر صورت یقینی بنانا جیسے اہم نکات شامل تھے۔ یوں تو ان کے قوم سے اور بھی بڑے بڑے وعدے، جیسے ایک کروڑ نوکریاں دینا، کم آمدنی والوں کیلئے پچاس لاکھ گھر تعمیر کرنا، پٹرول، گیس اور بجلی جیسی اشیا کو کسی قیمت مہنگا نہ کرنا، وزیر اعظم ہاؤس، صدرِ پاکستان کی سرکاری رہائش گاہ، وزرائے اعلیٰ ہاؤسز اور گورنر ہاؤسز کی نہ صرف باؤنڈری وال کو بنیادوں سے اکھاڑ پھینکنا بلکہ انھیں کالجوں، یونیورسٹیوں اور عوام کی تفریح گاہوں میں تبدیل کرکے حکومت کے تمام اعلیٰ عہدیداروں کو عوام کا خادم بنانے جیسے دعوے شامل تھے۔ ایک طویل عرصے تک عوام اپنے آنکھوں میں خواب سجائے ٹکٹکی باندھ کر تمام ہاؤسز کو دیکھتے رہے کہ جانے کب یہ ساری رہائش گاہیں کالجوں، لائیبریریوں، تفریح گاہوں اور یونیورسٹیوں میں تبدیل ہونگی اور نہ جانے کب ان کی دیواریں مسمار کی جائیں گی۔

حکومت میں آنے سے قبل ملک کے مناظر کچھ اور ہوا کرتے ہیں لیکن نجانے کیوں حکومت بن جانے کے بعد یہ مناظر یکسر بدل جاتے ہیں۔ شاید ایسا ہی سانحہ ہمارے ملک کے وزیرِ اعظم کے ساتھ بھی پیش آیا اور وہ اپنے وعدوں اور دعوں کے مطابق کسی بھی سلسلے میں بالکل ہی آگے نہیں بڑھ سکے بلکہ وہ اگر ایک قدم اٹھا بھی لیتے تو حالات ان کو دو قدم پیچھے ہوجانے پر مجبور کرتے رہے جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ بہت واضح اور صاف نظر آنے والی منزل ان کی آنکھوں سے اوجھل ہوتی چلی گئی۔

وزیر اعظم تاجروں سے خطاب میں جو کچھ بھی فرماتے رہے اس کا ایک ایک لفظ بالکل درست تھا۔ بقول ان کے ملک میں چوروں، لٹیروں اور ڈاکوؤں کی کوئی کمی نہیں۔ ان سب قانون شکنوں نے مافیاؤں کی ایسی شکل اختیار کر لی ہے کہ آئین و قانون کے آہنی ہاتھ ان کو پکڑ بھی لیں تو وہ موم کی مانند پگھل کر زمین پر گر جاتے ہیں۔ احتساب کیلئے قدم اٹھانے کی کوشش کی جائے تو محتسب کے ہاتھ پاؤں کاٹ کر رکھ دیئے جاتے ہیں۔ اسمگلنگ کی روک تھام کی جائے تو روک تھام کرنے والے ادارے بے بسی کی تصویر بنے دکھائی دیتے ہیں۔ انسان برف کے طوفان میں پھنس جائیں تو یہ ظالم اور شقی ان کے ایک ایک سانس کی قیمت وصول کرنے لگتے ہیں۔ پٹرول سستا کرنے کے اقدامات اٹھائے جائیں تو پورے پاکستان کی پٹرول مافیا سارے پمپ بند کر کے ملک کی ساری مشینری منجمد کرکے رکھ دیتی ہے۔ ٹرانسپورٹروں کی بے قاعدگیوں پر قابو پانے کی کوشش کی جائے تو سڑکیں سائیں سائیں کرنے لگتی ہیں۔ سارے ملک کی ترسیلات تھم جاتی ہیں یہاں تک کہ لوگوں کے کھانے پینے کی اشیا تک منڈیوں اور مارکٹوں سے غائب ہو جاتی ہیں۔وزیرِ اعظم کی بیان کردہ کوئی ایک بات بھی ایسی نہیں جس کی نفی کی جاسکے لیکن یہاں کئی سوالات ایسے ہیں جس کا جواب اگر عوام وزیرِ اعظم اور ان کی پوری کابینہ سے نہیں پوچھیں تو پھر کس سے پوچھیں۔

سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا ان مافیاؤں نے ان کے دور میں جنم لیا ہے؟۔ کیا حکومت تشکیل دینے سے قبل ان کو ان سب حرام خوروں کا علم نہیں تھا۔ اگر جواب ہاں میں ہے تو اتنی سنگین بے خبری کیا قابلِ معافی ہے۔ کیا انھیں علم نہیں تھا کہ ملک اتنا خود کفیل نہیں ہے کہ وہ آئی ایم ایف سے قرضہ لئے بغیر چلایا جا سکے۔ کیا وہ نہیں جانتے تھے ڈاکو، لٹیرے اور چور بہت اوپر تک رسائی رکھتے ہیں اور ان پر ہاتھ ڈالنا بھڑ کے چھتے میں ہاتھ ڈالنے کے برا بر ہے۔ کیا ان سب پر ہاتھ ڈالنے سے قبل یہ ضروری نہیں تھا کہ قانونی پیچیدگیوں اور عدالتی اختیارات میں جو بھی سقم ہیں ان کو دور کیا جائے۔قانون کی حکمرانی کی بار بار باتیں کرنا، کسی کو بھی نہیں چھوڑوں گا کی تکرار، ملک کی لوٹی ہوئی دولت کو واپس لانے کے فلک شگاف نعرے اور دعوے، معیشت کو اس حد تک بحال کردینے کا ذکر کہ لوگ نہ صرف بیرونی ممالک جانا بھول جائیں بلکہ جو لوگ کئی دھائیوں سے باہر گئے ہوئے ہیں وہ بھاگے دوڑے چلے آئیں گے جیسی لاف و گزاف کیا ہوئیاں ہی تھیں؟

وزیر اعظم صاحب آج تاجروں کے سامنے اپنی جن مشکلات کو بیان کر رہے تھے تو کیا تاجر ان مشکلات کو حل کر سکتے ہیں۔ وہ عوامی اجتماعات میں بھی جس شد و مد کے ساتھ ان ہی مشکلات کا ذکر کرتے ہیں تو کیا عام آدمی ان مشکلات کا سدِ باب کر سکتا ہے۔ وکلا ہوں، ججز ہوں، دانشور ہوں، صحافی برادری ہو یا کوئی بھی فورم، ملک کے ڈاکوؤں، لاقانونیت پھیلانے والوں، مافیاگردوں یا کسی بھی قسم کی غیر قانونی سرگرمیوں حصہ لینے والوں کے خلاف یہ سب کسی بھی قسم کا کوئی ایکشن لینے کا قانونی اختیار رکھتے ہیں۔

وہ مشکلات جن کا ذکر وزیر اعظم کرتے چلے آرہے ہیں ان مشکلات پر قابو پانا صرف اور صرف حکومتوں ہی کا کام ہوتا ہے۔ چور ہوں، مافیائیں ہوں، احتساب کا عمل ہو، معیشت کی بحالی ہو یا عوامی فلاح و بہبود کے منصوبے، ان سب پر قابو پانا اور مجرموں کے ساتھ قانون کے مطابق کارروائیاں کرنا بہر صورت حکومت کی ہی ذمہ داری ہے۔ اگر یہ سب کچھ آپ نہیں کر سکتے تو نہایت معذرت کے ساتھ عرض ہے کہ عوام یہ کہنے پر مجبور نہ ہو جائیں کہ ناچ نہ جانے آنگن ٹیڑھا۔

حصہ
mm
حبیب الرحمن ایک کہنہ مشق قلم کار ہیں وہ بتول، اردو ڈائجسٹ، سرگزشت، سنڈے میگزین(جسارت)، جسارت اخبار میں "صریر خامہ" ٹائیٹل اور کچھ عرحہ پہلے تک "اخبار نو" میں "عکس نو" کے زیر عنوان کالم لکھتے رہے ہیں۔انہوں نے جامعہ کراچی سے سیاسیات میں ماسٹرز کیا ہے۔معالعہ اور شاعری کا شوق رکھتے ہیں۔