پاکستان کا تعلیمی نظام

سر آپ مجھے بتائیں کہ اب آگے میں کیا لوں، آرٹس بہتر رہے گا یا کامرس؟ یا پھر جو مما کہتیں ہیں کہ میڈیکل کالج میں داخلہ لے لو تاکہ ڈاکٹر بن سکوں،اب بتائیں مجھے آگے کیا کرنا چاہیے؟ میں اس میٹرک پاس بچے کی باتیں سن کر حیران ہونے کے بجائے مسکرا کر اس کی طرف دیکھا۔یہ بتائو تم کیا بننا چاہتے ہو۔ تم نے اپنے بارے میں کیا سوچا ہے اور تمہیں کیا بہتر لگتا ہے۔؟ میرے سوال پر وہ سر کھجانے لگا۔ سر میں نے ابھی تک کچھ سوچا ہی نہیں۔ لیکن مجھے لگتا ہے کہ میں کامرس کالج میں داخلہ لے لوں۔ کیونکہ بینک میں کافی اسکوپ ہے۔ میں اس کا جواب سن کر پھر مسکرایا اور کہا اچھا یہ بتائو تمہارا میتھ کیسا ہے؟ سر بہت اچھا ہے۔ تو پھر میرے ایک سادا اور آسان سوال کا جواب دے دو تو پھر تم کامرس کالج میں داخلہ لے لینا۔ 87 کا 20 پرسنٹ کتنا بنتا ہے؟ وہ جیب سے ایک مہنگا موبائل نکالتا ہے اور دس منٹ کے بعد بھی وہ اس سوال کا جواب دینے سے قاصر رہتا ہے۔

یہ سوال کم بیش ہر گھر میں ہر وہ بچہ جو میٹرک کی دہلیز پارکر کے کالج کے سخت میدان میں جانے کی تیاری کررہا ہوتا ہے اپنے کسی نہ کسی جان پہچان والے سے ضرور پوچھتا ہے کہ اب آگے مجھے کیا کرنا چاہیے۔ یہ ایک مذاق نہیں بلکہ قومی المیہ ہے کہ دس سال اسکول لائف گزارنے کے بعد بھی وہ یہ سوال کررہا ہے کہ اب آگے اسے کیا کرنا چاہیے؟ کیا جس اسکول سے وہ میٹرک کرکے نکلا ہے وہاں اساتذہ نے اس بچے کو نہیں بتایا کہ اب آگے اسے کیا کرنا چاہیے۔ کیا والدین نے اپنے بچے کے ہر سال رزلٹ نہیں دیکھتے کہ ان کا بچہ کس سبجیکٹ میں کتنے مارکس لایا ہے اور اس کا رجحان کس طرف ہے؟ اگر والدین تعلیم یافتہ نہیں ہیں تو کیا اساتذہ نے بھی اس طرف دھیان نہیں دیا؟ اسکول بیسک ایجوکیشن ہے مگر افسوس کے ہمارے ملک میں کورے کاغذ کا ستیاناس کرنا ایک قومی مشغلہ بن چکا ہے۔ ہر استاد بچے کو اپنے رنگ اور ڈھنگ سے ہانکنے کی کوشش کرتا ہے اسے یہ تک معلوم نہیں کہ بچے کی خوبی اور خامی کیا ہیں۔ جو سلیبس وہ پڑھ رہا ہے اس میں اس کی دلچسپی کتنی ہے۔ ہمارے یہاں اگر بچہ انگلش میں کمزور اور ڈرائنگ میں اچھا ہے تو اس کی ڈرائنگ کی خوبی کو نظر انداز کرکے اس کی کمزور انگلش کی خامی پر فوراً نکھٹو۔ نکما اور نالائق جیسے القابات سے نوازنے کا سلسلہ شروع کردیاجاتا ہے۔بچے کو کچھ آئے یا نہ آئے مگر انگلش فرفر آنی چائیے۔ اردو میں بیشک فیل ہوجایے کوئی گم نہیں۔ لیکن انگلش میں سو میں سو نمبر لازمی ہونے چاہیے۔ اور جب بچہ گھر والوں کی اور اساتذہ کی بے عزتی سہہ سہہ کر انگلش میں اچھے مارکس لے آتا ہے تو وہ اپنی تمام تر خوبیاں اس انگلش کے اچھے مارکس کے چکر میں تباہ کرچکا ہوتا ہے۔ اپنا تمام تر دھیان انگلش کی بہتری میں لگا کر باقی مضامین سے خود کو بے فکر کردیتا ہے۔

گزشتہ دو سال میں نمبرز گیم بہت زیادہ کھیلے گئے۔ اس سے نائن اور میٹرک کے بچوں نے غنیمت سمجھا اور اس کے بل بوتے پر وہ کالج کی دنیا میں قدم رکھنے میں با آسانی کامیاب ہوئے۔ لیکن یہاں صورتحال بہت زیادہ خوفناک رہی۔ جس کا رجحان آرٹس کی طرف تھا اس نے کامرس میں داخلہ لے لیا۔ کامرس میں دلچسپی رکھنے والے نے اچھے نمبر ملنے پر میڈیکل میں اپلائی کرلیا۔ جس نے آگے کی تھوڑی بہت جو منصوبہ بندی کر رکھی تھی وہ ان نمبروں کی وجہ سے اپنے منصوبوں سے ہٹ کر الگ دنیا میں داخل ہوگئے جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ہزاروں بچے اب زبردستی کی تعلیم حاصل کرنے میں لگے ہیں۔ نمبر اچھے دیکھ کر مشورہ دینے والوں نے بھی انہیں یہ ہی کہا ہوگا کہ چھوڑوں آرٹس وارٹس کو۔ تمہیں تو پری میڈیکل میں داخلہ لینا چاہیے۔ جس کا ذہن فائن آرٹس کی طرف ہو اسے آپ ڈاکٹر بنائیں گے تو پھر یقینا نیم حکیم خطرہ جان والاہی معاملہ ہوگا۔

سرکاری اور پرائیوٹ اسکولوں میں کہیں بھی بچوں کی کیرئر کونسلنگ نہیں کی جاتی۔ ان کی پرکھ کا کوئی آلہ کار نہیں۔ ان کی کمی اور خامی کو دور کرنے کا کوئی میکانزم نہیں۔ سب کو ایک ہی لاٹھی سے ہانکنا معمول بن چکا ہے۔ سب سے زیادہ افسوسناک بات یہ کہ ہمارا تعلیمی نصاب آج بھی انگریز دور کا ہی ہے۔ ہر دو تین سال بعد معمولی سی تبدیلی اور فرنٹ پیج یکسر بدل کر ہم سمجھتے ہیں کہ ترقی یافتہ ممالک کی فہرست میں شامل ہوگئے ہیں۔ تاہم یہاں پر دل کو بہلانے کے لیے غالب خیال تو اچھا ہے والی مثال ہم پر مکمل فٹ آتی ہے۔

ہمارے وزیر اعظم مہنگائی پر ترقی یافتہ ممالک کا موازنہ پاکستان سے کرتے ہیں۔ لیکن تعلیم کے معاملے پر ہم نیگرو سے بھی پیچھے ہیں اس پر کوئی توجہ نہیں دی جاتی۔ صوبوں کے پاس اختیارات آنے سے تعلیم کا مزید بیڑہ غرق ہوچکا ہے۔ اس سے ہم یکساں تعلیمی نصاب سے یکسر محروم ہیں۔ جب کہ ہونا تو یہ چاہیے کہ تعلیم کے معاملے پر تمام صوبے،تمام ادارے اور تمام سیاسی جماعتیں ایک پیج پر ہونی چاہیے۔ لیکن ہم صرف فوج کے معاملے میں ایک پیج پر ہوتے ہیں باقی سارے معاملات کھٹائی کی نظر ہی کیوں نا ہوں ہمیں اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔

ہمارے سرکاری اسکول اتنے لاوارث ہیں کہ این جی اوز کو گود لینے پڑتے ہیں اور ہم بھی ان تعلیمی اداروں سے اتنے تھکے ہوئے ہیں کہ فوراً جان چھڑاتے ہیں۔ پرائیوٹ تعلیمی ادارے اپنی منشا کے مطابق تعلیم کا ستیاناس اور والدین کی جیب خالی کرنے میں مصروف ہیں مگر ہمیں کیا۔یہ کوئی قومی مسئلہ تو نہیں جس پر بحث کی جائے۔ جس پر تھنک ٹینکس ہونی چاہیے، اسمبلی میں قانون لانا چاہیے، نجی اور سرکاری سطح پر اس پر سیمینار ہونے چائیے، بھلا یہ کوئی خاص شخص کی مدت ملازمت کا معاملہ تھوڑی ہے جس پر اتنا وقت ضائع کیا جائے۔ دفع کریں تعلیمی ادارے جانے والدین جانے، ہمیں اس سے کیا۔

پہلے سرکاری تعلیمی اداروں سے سائنسدان،انجینئرز نکلا کرتے تھے نامور ڈاکٹر اور مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے ماہرین نکلا کرتے تھے۔ لیکن اب ہمارے پرائیوٹ اسکول سے ٹک ٹاکرز نکلتے ہیں، یوٹیوبر نکل رہے ہیں، عاشق نکل رہے ہیں اور سب سے زیادہ مایوسی نکل رہی ہے۔ جن کے ہاتھوں میں محض کڑک کاغذ کی چند ڈگریاں ہیں جو انہیں کسی بھی مقصد کو پورا کرنے سے قاصر ہیں۔

حصہ
mm
روزنامہ جسارت سے وابستہ ہونے کے ساتھ ساتھ مختلف بلاگز ویب سائٹس پر بلاگ ‘فیچرز اور تاریخی کہانیاں لکھتے ہیں۔ روزنامہ جسارت کے سنڈے میگزین میں بھی لکھ رہے ہیں۔ روزنامہ جناح کراچی میں بطور سندھ رنگ میگزین کے انچارج کے طورپر اپنی خدمات بھی انجام دے چکے ہیں۔ زیادہ تر معاشرتی مسائل پر لکھنے کا شوق ہے۔ اس کے علاوہ کراچی پریس کلب کے ممبر اورپاکستان فیڈرل کونسل آف کالمسٹ کے بھی ممبرہیں۔