ہمارے ملک میں بڑے بڑے سانحات اور حادثات پر کمیشن بنتے ، کمیٹیاں تشکیل پاتیں اور تحقیقات ہوتے اتنا وقت گزر جاتا ہے کہ لوگ قیمتی جانوں کے نقصان پر ’’ قدرت کا لکھا ‘‘ سمجھ کر صبر کرلیتے ہیں۔ اسطرح تحقیقات وقت کی گرد تلے دب جاتی ہیں اور ایسے واقعات اور سانحات کے زمہ دار افراد صاف بچ نکلتے ہیں۔ زمہ دار افراد کا تعین اور انہیں کڑی سزا نہ ملنے کے سبب پھر غیرزمہ دار روئیے جنم لیتے ہیں اور سانحات و حادثات کا خطرہ پھر سے موجود رہتا ہے۔
کچھ روز بعد سانحہ مری کو بھی ’’ تقدیر کا لکھا ‘‘ سمجھ کر فراموش کردیا جائے گا ، مگر جو دکھ اور اذیت پیاروں کے بچھڑ جانے پر ان کے اہل خانہ کو تا حیات جھیلنا پڑے گی اس کا ازالہ ممکن نہیں۔ ملکہ کوہسار مری میں 7 جنوری کی رات کو آنے والے برفانی طوفان نے23 زندگیاں نگل لیں۔ آج کہا جارہا ہے کہ’’ مری میں سیاحوں کی ہلاکت کی وجہ سردی نہیں بلکہ کاربن مونو آکسائیڈ گیس بنی ۔ جب گاڑی کا انجن آن ہو اور اس کا ایگزاسٹ برف میں دھنس گیا ہو تو یہ گیس باہر کی بجائے گاڑی کے اندر جمع ہوتی ہے ، کیونکہ یہ بو کے بغیر گیس ہے لہٰذا اس کا پتا نہیں چلتا اور پہلے انسان چند منٹوں میں بیہوش اور پھر موت واقع ہو جاتی ہے‘‘ ۔
یہ درست مگر غور طلب بات یہ ہے کہ لوگوں کو شدید برف باری میں گھنٹوں گاڑیوں میں مقید رہنے کی ضرورت ہی کیوں پیش آئی ۔ حکومتی امداد کے منتظر لوگ گاڑیوں میں بیٹھے بیٹھے دم توڑ گئے،سڑک پر کھڑے لوگوں کو کہیں سے کوئی امداد نہ ملی۔ جبکہ محکمہ موسمیات نے 6 اور7 جنوری کو مری، گلیات، کاغان، سوات اور دیگر پہاڑی علاقوں میں شدید برف باری کی پیش گوئی کی تھی، سیاحوں کی بڑی تعداد کے مری آنے کی اطلاعات کے باوجود حکومت کی جانب سے پیشگی اقدامات کیوں نہ کیے گئے ۔ ہوٹل مالکان نے نہ فیملی کا لحاظ کیا نہ بچوں پر ترس کھایا، ایک ایک کمرے کے کرائے کہیں 25 اور کہیں50 ہزار مانگے ، اس پر بھی انتظامیہ نے کوئی ایکشن نہ لیا۔
کیا تحریک انصاف کی حکومت اور انتظامیہ کوا نسانی جانوں کی کوئی پرواہ نہیں، جبکہ حکومتی وزراء تو انتظامیہ کی غفلت سرے سے تسلیم ہی نہیں کررہے۔ گزشتہ حکومتوں کی طرف سے مری میں موسم سرما کے دوران ٹریفک اور برف باری کی صورت میں حفاظتی انتظامات کے حوالے سے مفصل ایس او پیز بنائے گئے تھے ۔ جن پر برسوں سے عمل درآمد بھی ہوتا رہا ہے ، لیکن بزدار حکومت نے انہیں نظر انداز کر دیا۔ بیوروکریسی کے ذرائع کے مطابق ہر سال موسم سرما سے قبل سابق وزیراعلیٰ شہباز شریف مری میں تمام متعلقہ اداروں کا ایک اجلاس منعقد کرتے تھے جس میں ٹریفک کے بہائو کو برقرار رکھنے اور برف باری کی صورت میں برف ہٹانے کے انتظامات کا جائزہ لیا جاتا تھا۔
کمشنرز اور ڈپٹی کمشنرز کو ذمہ داریاں دی جاتی تھیں تاکہ ایس او پیز پر عملدرآمد کو یقینی بنایا جا سکے اور باقاعدگی کے ساتھ لاہور میں ایک مانیٹرنگ میکنزم تشکیل دیا جاتا تھا۔ سی اینڈ ڈبلیو اور ہائی وے ڈپارٹمنٹس کیلئے خصوصی طور پر فنڈز مختص کیے جاتے تھے ۔ صوبائی ہائی ویز ڈپارٹمنٹ کے مشینری ڈویژن کو کسی بھی ایمرجنسی کیلئے ایک کنٹرول روم تشکیل دینے اور تمام متعلقہ محکموں کے ساتھ رابطہ کاری کی ذمہ داری دی جاتی تھی تاکہ ہر وقت مستعدی کے ساتھ اقدامات ممکن ہو سکیں۔ ہائی ویز مشینری کے ایس ڈی او کو نمک چھڑکنے کیلئے فور بائی فور جیپوں کا انتظام کرنے کی ذمہ داری دی جاتی تھی۔ یہ بھی کہا جاتا تھا کہ برف باری سے قبل ہی نمک کی وافر اور ضروری مقدار خرید کر مختلف مقامات پر رکھنا ہائی ویز ڈپارٹمنٹ مری کا کام ہوگا۔ ٹریفک پولیس مری سے کہاجاتا تھا کہ وہ موسم سرما کیلئے ایک علیحدہ ٹریفک پلان پیش کرے ۔ اضافی ٹریفک پولیس کو برف باری کے سیزن میں تعینات کیا جاتا تھا ۔ ایس او پیز میں کلدانہ چوک اور جھیکا گلی چوک سمیت مختلف مقامات کی نشاندہی کی جاتی تھی جہاں ٹریفک کے بہائو کو پرسکون رکھنے کیلئے دوگنا انتظامات کرنا ہوتے تھے ۔
اس کے علاوہ، الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا کے ذریعے ٹریفک کے انتظامات کے حوالے سے ایک مہم چلانے کی بات ایس او پیز میں شامل تھی۔ ایس او پیز میں یہ بھی بتایا گیا تھا کہ برف باری کے دوران کون سی سڑک بند رہے گی اور کون سی سڑک یکطرفہ راستہ ہوگی۔ ایس او پیز میں کنٹونمنٹ بورڈ مری اور ہیڈکوارٹرز ڈویژن مری کیلئے بھی مختلف ذمہ داریاں مقرر کی جاتی تھیں۔ کنٹونمنٹ بورڈ کو اپنی مشینیں اور ٹریکٹرز استعمال کرکے برف ہٹا نے کے لیے کہا جاتا تھا، جبکہ ہائی ویز ڈپارٹمنٹ کو ذمہ داری دی جاتی تھی کہ وہ ہیڈکوارٹرز ڈویژن مری کی معاون کرے تاکہ کینٹ کے مرکزی راستوں سے برف ہٹانے کو یقینی بنایا جا سکے ۔ سخت ایمرجنسی یا پھر سڑکوں کی طویل بندش کی صورت میں ضرورت پیش آنے پر سول انتظامیہ کی مدد کیلئے فوج سے درخواست کی جائے۔ ایس او پیز میں ضلعی پولیس، ریسکیو 1122 ، محکمہ جنگلات، آئیسکو، واپڈا، تحصیل ہیڈکوارٹرز اسپتال کیلئے بھی ذمہ داریوں کا تعین کیا گیا تھا۔ مگر وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کی جانب سے حفاظتی اقدامات کے ایس او پیز کو یکسر نظر انداز کردیا گیا ۔
اگر سیاحوں کی بڑی تعداد کے مری آنے کی اطلاعات کے باوجود حکومت کی جانب سے پیشگی اقدامات کیے جاتے تو قیمتی جانیں بچائی جاسکتی تھیں۔ آج مری اور ملحقہ علاقوں میں سیاحوں کی ہلاکت اور شدید برف باری کے بعد وہاں پاک آرمی کے تعاون سے ریسکیو اور ریلیف آپریشن جاری ہے ۔ انتظامیہ، ٹریفک پولیس، ریسکیو 1122، پاک فضائیہ، این ڈی ایم اے اور دیگر حکومتی ادارے پاک فوج کے شانہ بشانہ ریلیف کی سرگرمیوں میں حصہ لے رہے ہیں۔