وقت دوڑ کر گزر رہا ہے.اب جدید دور کے ساتھ جِدت اختیار کرنے کی ضرورت ہے. ایسی درسگاہیں بنانے کی ضرورت ہے جہاں صرف سائنس و ٹیکنالوجی میں ملک کو آگے بڑھانے کے لئے ریسرچ کی جا سکے. آلات حرب کے بغیر جنگ نہیں لڑی جا سکتی اسی طرح ناکافی آلات کے بغیر نوجوان ریسرچرز کام نہیں کر سکتے.
یہ حکومتی ذمہ داری ہے کہ پرائیوٹ و گورنمنٹ سیکٹر یونیورسٹیوں میں زمانہ کے مطابق جِدت رکھنے والا تجرباتی سامان مہیا کرے. اب کرونا کی ہی مثال لے لیجئے. پاکستان میں Pak-Vac نامی ویکسین بنائی گئی جسے بہت کم افراد نے لگوایا. جبکہ چائنہ اور یورپ سے جو ویکسین کی کھیپ پاک فضایہ کے طیارے لے کر پاکستان پہنچے ان ویکسینز کو لگوانے والے افراد کی تعداد لاکھوں میں ہے. کیا وجہ ہے کہ ہم خود انحصار کی بجائے درآمد شدہ اشیاء کو ترجیح دیتے ہیں. اس مسئلے کے پیچھے بہت سے محرکات کارفرما ہیں جن میں سے ایک مسئلہ عوام کا اعتماد بحال کرنا ہے. اور وہ اسی صورت میں ممکن ہے کہ اگر پاکستانی ریسرچرز اپنی قابلیت کے بل پر نئی اشیاء ایجاد کر کے اسے عام آدمی کی پہنچ تک لائیں کیوں کہ ریسرچ کا فقط مقصد زندگی سہل بنانا اور عوام کی فلاح و بہبود کے لئے کام کرنا ہے.
صرف کاغذی قلمبند الفاط عوام کو فائدہ نہیں دے سکتے بلکہ ان الفاظ کو عملی جامہ پہنچا کر پراڈکٹس تیار کر کے عوامی سطح پر لانچ کر کے عوام کا اعتماد بحال کیا جا سکتا ہے. ریسرچ ایک ایسی فیلڈ ہے جس میں ہم باقی دنیا سے بہت پیچھے ہیں. پاکستان کا کوئی خلائی اسٹیشن و سیٹلائیٹ موجود نہیں. جس کی وجہ سے ہم یورپ کے مرہون منٹ اپنے نظام کو بحال کئے ہوئے ہیں. چائینہ وہ ملک ہے جو ہم سے بعد میں آزاد ہوا. آج دنیا کی معاشی سپر پاور ہے اور مستقبل میں وہ امریکہ کو شکست دے کے عالمی سپر پاور بننے کو تیار ہے. کیا وجہ ہے کہ وہ ہر میدان میں ہم سے آگے ہیں؟
پاکستان کے دفاعی بجٹ کے مقابلے میں تعلیمی بجٹ کو دیکھیں تو اس بات سے بخوبی اندازہ ہو جائے گا کہ ہم کیوں چائینہ سے پیچھے ہیں. جو قوم تعلیم کو اہمیت نہ دے وہ ہرگز ترقی نہیں کر سکتی. اب وقت ہے کہ پاکستان کو عالمی سطح پر ایک ترقی یافتہ ملک کے طور پر متعارف کروایا جا سکتا ہے. اس ضمن میں حکومت کا کلیدی کردار ہے. اگر اب بھی مستقبل کی منصوبہ بندی اور نئی نسل کو تیار کرنے کی سوچ نہ پیدا کی گئی تو پھر بقول شاعر۔۔۔۔۔۔۔
“تمہاری داستاں تک بھی نہ ہوگی داستانوں میں”.