موسم کا اثر ہے ابّا مجھے دوا کی ضرورت نہیں ہے آپ بس امّاں کو پیسے دے دیں مالک مکان نے آج امّاں کو گھر خالی کرنے کا کہا ہے.
دانش نے گیارہ سالہ اسد کو دیکھا جو بخار میں تپ رہا تھا اسدبیٹا سوٸٹر پہن لو ہم ساتھ والے دواخانے چلتے ہیں راستے میں اسد نے پوچھا،،،،ابّا میرے دوست کہے رہے تھے دھرنا ہو رہا ہے یہ دھرنا کیوں ہو رہا ہے؟ کیا ان لوگوں کی بھی تنخواہ نہیں ملی یا ان کے پلاٹ پر بھی کسی نے قبضہ کر لیا ہے؟ دانش نے اسد کا ہاتھ پکڑا کچھ بھی نہیں ہے بیٹا بس ایسے ہی بیٹھے ہیں لو دواخانہ تو بند ہے۔ بارش بھی تیز ہے دواخانہ تو بند ہی ہونا تھا چلو آگے کلینک ہے وہاں سے دوا ضرور مل جاۓ گی۔ اسد تم تو پورے ہی بھیگ گۓ کیا کریں سڑک کم گڑھے زیادہ ہیں اسی لیۓ تمھارے کپڑے بھی گندے ہوگۓ۔ابّا آپ تیز بارش میں اتنی پریشانی اٹھا کر دوا کیوں دلوانے جا رہے ہیں ہم کل لے لینگے۔نہیں بیٹا بیماری کا علاج صحیح وقت پر نہ کیا جاۓ تو تکلیف بڑھ جاتی ہے ابّا آپ دھرنے میں کیوں نہیں گۓ؟ارے اسد مجھے وقت ہی نہیں ملتا۔
ابّا حکومت ہمیں وظیفہ کب دے گی؟ نہ بیٹا اللہ نہ کھلاۓ کسی کو ایسا پیسہ جس میں انسان کی عزتِ نفس ہی مر جاۓ میں نے دیکھا ہے قطاروں میں کھڑے لوگ کس طرح رسوا ہو رہے ہیں۔ابّا یہ کلینک بھی بند ہے اسد نے دور سے ہی دیکھ کر کربتا دیا۔ یا اللہ اب کیاکروں ۔دانش نے پریشانی سے ادھر اُدھر دیکھا۔ ابّا چھوڑیں گھر چلتے ہیں راستے سے آدھا کلو دودھ لے لیں بس اگر آپ کے پاس پیسے ہیں تو۔ہاں کیوں نہیں میں دوست سے تمھارےلیۓ کچھ پیسے ادھار لے آیا تھا۔ رہنے دیں ابّا گھر پر تو گیس ہی نہیں آرہی گرم کیسے کریں گے۔
اسٹور سے بخار کی دوگولیاں لےکر دانش نے گھر کا رخ کیا۔ ابّا پانی کی پچاس والی بوتل تو لے لیں گھر پر صاف پانی بھی نہیں آرہا۔۔۔۔۔راستے میں اسد نے پھر سوال شروع کر دیۓ ابّا میرا دوست بتا رہا تھا دھرنے والے دن رات کھلے آسمان تلے بیٹھے رہتے ہیں۔ بیٹا انکے اپنےمساٸل ہیں ۔ لیکن ابّا وہ تو کہتے ہیں۔ “حق دو کراچی کو” .کراچی میں تو ہم بھی رہتے ہیں نا ! ہاں اسد پر ہم کچھ دن بعد گاٶں چلے جاٸیں گے۔ ابّا سب چلے جاٸیں گے کیا کراچی سے؟ارے اسد تم کتنی باتیں کرتے ہو۔ ابّا کل میں دھرنے میں ضرور جاٶں گا کیوں کے میں تو فارغ ہوں گورنمنٹ اسکول میں اچھی تعلیم نہیں ہے اور پراٸیویٹ اسکول کے لیۓ ہمارے پاس پیسے نہیں ہیں۔
اسد تم ابھی چھوٹے ہو۔ نہیں ابّا ابھی آپ نے ہی تو کہا اگر وقت پر علاج نہ کیا جائے تو بیماری بڑھ جاتی ہے۔ کل آپ کے بابا کے پاس وقت نہیں تھا اپنے حقوق کی خاطر لڑنے کے لیۓ آج آپ کے پاس نہیں ہے اور اگر سب ایسا ہی کہتے رہے تو کل میں بھی ان مساٸل کا عادی ہوجاٶں گا اور کہوں گا وقت ہی نہیں ہے میرے پاس۔کل کے لیۓ آج کھڑا ہونا ہوگا ابّا۔ دانش یہ سن کر حیران ہوگیا ابھی تو چار جماعتیں ہی پڑھی ہیں اسد نے اور اپنے حق مانگنے لگا ہے۔
صبح باپ بیٹے دھرنے میں بیٹھے نعرے لگارہے تھے۔ “کالا قانون نہ منظور”۔ دھرنے میں موجود ڈاکٹر نے نہ صرف اسد کا چیک اپ کیا بلکہ اچھی خوراک کا بھی انتظام کیا.
30 اکتوبر 1947 کو قاٸد اعظم نے لاھور میں طلبا سے مخاطب ہوکر فرمایا تھا۔”مسلمانوں کے لیۓ اس سے بہتر اور کوٸ ذریعہ نجات نہیں ہوسکتا کہ وہ صداقت کی خاطر شہید کی موت مر جائے”