جونسن لندن سے کسی کام کے سلسلے میں کراچی آیا ہوا ہے ائر پورٹ سے ہوٹل جاتے ہوئے سندھ اسمبلی کے سامنے دریوں پر بیٹھے لوگوں پر نظر پڑی تو جونسن نے حیرت انگیز لہجے میں ڈرائیور سے پوچھا یہ کون لوگ ہیں جو اس سردی اور بارش میں یہاں بے فکری سے بیٹھے ہیں ۔
ڈرائیور نے درد بھرے لہجے میں جواب دیا صاحب جی یہ وہ لوگ ہیں جو اس شہر کراچی کی فکر میں یہاں دھرنا دیے بیٹھے ہیں کراچی کے ساتھ ہونے والی نا انصافیوں کے خلاف أواز اٹھانے کے لۓ اپنے سکون اور آرام کو پس پشت ڈال کر یہاں بے أرام ہو رہے ہیں۔
شہر کراچی میں بڑھتی ہوی بی روزگاری کوٹہ سسٹم شہر میں بلدیہ کی ناقص کارکردگی کے نتیجے میں گندگی کے ڈھیر بجلی اور گیس کی بندش اور اس پر ظلم بلوں پر بے جا بڑھتے ہوۓ سر چارج اور ایسے ہی بہت سارے اور مسائل کے حل کے کے منتظر ہے أیسے میں حافظ نعیم الرحمن صاحب امید کی ایک کرن ہیں جو اس شہر کے مسائل کے لۓ یہاں دھرنا دے بیٹھے ہیں۔
جونسن نے ایک سرد آہ بھری اور بولا کتنے عظیم لوگ ہیں جو اپنے شہر اور اپنے لوگوں کے لۓ اتنا درمند دل رکھتے ہیں اگر ایسے لوگ ہمارے لندن اور امریکا جیسے ملک میں ہوں تو ہم تو ان کے خلوص اور قابلیت کا بھرپور فائدہ اٹھاتے نہیں تھکیں گے ۔ ڈرائیور بولا بس صاحب جی کیا بتایا جائے یہاں تو وڈیرے جاگیردار اور چوہدری ہی فائدہ کی زندگیاں گزارنے میں لگی ہوئے ہیں ۔ سادہ زندگی تو سراج الحق صاحب جیسے عظیم انسان گزار رہے ہیں ۔
جتنی دیر گاڑی یہاں رکی جونسن مسلسل دھرنے پر بیٹھے لوگوں کی تصویر اور ویڈیو بناتا رھا ڈرأیور نے پوچھا أپ یہ کیوں بنا رہے ہیں ۔ جونسن بولا میں اپنے ملک میں جا کر لوگوں کو دکھاؤں گا کہ پاکستان میں ایک جماعت کے لوگ ایسے بھی ہیں جو اپنا چین سکون أرام بھول کر اپنے شہر اور اس میں رہنے والے افراد کے لئے کس طرح دھرنا دیکر بیٹھے تھے انہیں سردی نہیں لگتی،بارش ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکتی ،انہیں گرم بستر اور ہیٹر اچھے نہیں لگتے یہ کون لوگ ہیں کہ اپنے شہر کے حق کے لے اپنا تن من دھن وارے بیٹھے ہیں ۔