یہ ایک حقیقت ہے کہ قدرتی گیس مختلف گہرائیوں اور جغرافیائی فارمیشنز کے ساتھ زیر زمین پائی جاتی ہے۔ یہ پاکستان میں سب سے زیادہ پائے جانے والے توانائی کے ذرائع میں سے ایک ہے. لیکن ہمارے وطن عزیز میں جیسے ہی سردی کی شدت میں اضافہ ہوتا ہے اس کے ساتھ ساتھ گیس کی قلت کا مسئلہ بھی شدت اختیار کر جاتا ہے،گھروں میں چولہے ٹھنڈے پڑچکے ہیں اور صنعتوں کو گیس کی بندش کی وجہ سے پیداوار معطل ہوچکی ہیں، جس کی وجہ سے کورونا سے متاثرہ معیشت ایک بار پھر ہچکیاں لے رہی ہے۔
پاکستان میں سردیوں میں قدرتی گیس کی طلب بڑھنے اور پیداوار محدود ہونے کے سبب گھریلو صارفین، صنعت اور سی این جی سمیت مختلف شعبوں کو گیس کی بندش کا سامنا ہے۔ سردیوں میں یومیہ گیس کی طلب آٹھ ارب کیوبک فٹ ہوتی ہے جبکہ سسٹم میں موجود گیس صرف چار ارب کیوبک فٹ ہے۔ایسے میں ملک کو تقریباً چار ارب یومیہ کیوبک فٹ گیس کی کمی کا سامنا ہے۔ ایسے میں گیس سپلائی کرنے والی دونوں کمپنیاں سوئی سدرن اور سوئی نادرن گیس سپلائی کمپنی گیس لوڈ مینجمنٹ پلان بناتی ہیں جس میں ترجیح گھریلو صارفین کو دی جاتی ہے۔
قدرتی گیس کے کم ہوتے ذخائر اور بڑھتی ہوئی طلب کو مد نظر رکھتے ہوئے حکومت قطر سے ایل این جی یا مائع قدرتی گیس درآمد کر رہی ہے۔ لیکن، صورتحال بہتر نہیں ہوئی ہے۔ حکومتی وعدوں کے برعکس برآمدات میں اہم کردار ادا کرنے والی صنعتوں کو بھی گیس نہیں مل رہی ہے۔ملک میں گیس کی ضرورت کو پورا کرنے کے لیے جہاں مقامی طور پر گیس کی پیداوار ہوتی ہے تو اس کے ساتھ درآمدی گیس بھی سسٹم میں شامل کی جاتی ہے کیونکہ پاکستان میں گیس کی مقامی پیداوار ملکی ضرورت کو پورا کرنے سے قاصر ہے اور ملکی گیس کے ذخائر میں مسلسل کمی بھی دیکھنے میں آرہی ہے۔ جبکہ درآمدی گیس تنازع کا شکار رہی ہے اور بیرون ملک سے درآمد کی جانے والی گیس پر کرپشن اور بدانتظامی کے الزامات بھی تسلسل سے سُننے میں آتے ہیں۔
پاکستان قطر سے مائع قدرتی گیس درآمد کر رہا جو بحری جہازوں کے ذریعے کراچی کی بندرگاہ پہنچتی ہے۔ مائع قدرتی گیس یا ایل این جی کو کراچی بندرگاہ پر نصب پلانٹس کے ذریعے دوبارہ مائع سے گیس میں تبدیل کیا جاتا ہے اور سسٹم میں شامل کیا جاتا ہے۔پاکستان میں محض 28 فیصد صارفین کو پائپ لائن کے ذریعے گیس فراہم کی جاتی ہے۔ ملک میں گیس کے دریافت کردہ ذخائر میں کمی اور نئے ذخائر نہ ملنے کے سبب گیس کا بحران ہر سال مزید شدید ہو رہا ہے۔
ملک میں قدرتی گیس کی کمی کی وجہ سے کئی سال سے گیس درآمد کی جارہی ہے لیکن اس کے باوجود پائپ لائنیں بچھانے اور ٹرمینلز بنانے کے حوالے سے صوبوں اور وفاق کے درمیان عدم اتفاق پایا جاتا ہے جس سے صرف اور صرف عوام کو پریشانی اٹھانی پڑتی ہے۔ ایٹمی صلاحیت کے حامل پاکستان میں گرمیوں میں بجلی کی لوڈ شیڈنگ سے عوام مشکلات سے دوچار رہتی ہے اور سردیوں میں گیس کے بحران سے عوام کو شدید مشکلات میں ڈال دیا جاتا ہے، دیہی علاقوں کے لوگ گیس کی لوڈشیڈنگ کے سبب لکڑیاں جلاکر گزر بسر کررہے ہیں جبکہ شہری گیس کے مہنگے سلنڈرز استعمال کرنے پر مجبور ہیں. جبکہ دوسری طرف غریبوں کے چولہے ٹھنڈے، حکمرانوں کو بدعائیں، صبح اسکول جانے کے وقت روٹی نہ ملنے پر بچے بھوک سے بلکنے لگتے ہیں۔
حکومت عام آدمی کو ضروریات زندگی فراہم کرنے سے قاصر ہے اور مہنگائی کو ساتویں آسمان تک پہنچادیا گیا۔ عوام مہنگی ایل پی جی گیس اور لکڑی خریدنے کی طاقت نہیں رکھتے، سمجھ میں نہیں آتا بچوں کا پیٹ کیسے بھریں۔ ہوٹل والوں نے روٹی کے ریٹ بھی بڑھا دیئے ہیں۔ انتظامیہ مہنگائی کو کنٹرول کرنے میں بے بس ہو چکی ہے۔ حالانکہ وزیر اعظم عمران خان صاحب نے اعلان کے ساتھ ساتھ دعویٰ بھی کیا تھا کہ کھانا پکانے کے اوقات میں صارفین کو سوئی گیس فراہم کیا جائے لیکن محکمہ سوئی گیس نےطفل تسلیاں دے کر اس اعلان کو ہوا میں اڑا دیا۔وزیراعظم عمران خان صاحب سے میری مودبانہ گزارش ہے کہ دوبارہ سوئی گیس بحران کا نوٹس لیکر معاملے کو حل کروائیں تاکہ عوام کو گیس بندش کی وجہ سے ہونیوالی اذیت سے چھٹکارہ ملے اور صنعتوں کا پہیہ بھی چل سکے۔
دوسری طرف ہمیں بھی چاہیے کہ اپنا چولہا ،ہیٹر اور گیزر استعمال کے بعد بند کر دیں تو یہی بچنے والی گیس کسی اور ضرورت مند کے کام آسکتی ہے اس سے نہ صرف ان کا اپنا بل کم ہو گا بلکہ یہ قومی فریضہ ہے کہ بجلی گیس کی بچت کی جائے خدارا اس پر توجہ دیں سوچیں اور گیس کی چوری اور ضیاع سے گریز کریں ۔ہمیں بحیثیت پوری قوم کو شعور اور احساس کی ضرورت ہے۔