تعلیمی اداروں میں میوزک فیسٹیولز

کرہ ارض پر بسنے والا یہ مشت خاک اپنی علمی و عقلی استعداد کی بناء پر چاند ستاروں پر کمند ڈال رہا ہے۔انسان کی علمی ترقی دیکھ کر عقل دنگ رہ جاتی ہے کہ اس بظاہر معمولی ہئیت کی مخلوق میں کیسی طاقتیں مضمر ہیں۔ اگر انسان اپنے وقت اور طاقت کا صحیح استعمال کرے تو وہ خوابیدہ صلاحیتوں کو جگا سکتا ہے اور کائنات کو تسخیر کر سکتا ہے کیونکہ اس کے بنانے والے نے اتنی عظیم کائنات کو اس پانچ فٹ کے انسان کے لئے مسخر کر دیا ہے۔۔

ہم جانتے ہیں کہ انسان کی علمی ترویج کے لئے اس کی اوائل زندگی early age کی کیا اہمیت ہے۔اس عمرمیں ملنے والی رہنمائی اور ماحول ہی اس کی شخصیت کو بناتا ہے اور اس ضمن میں تعلیمی نظام بڑی اہمیت کا حامل ہے ۔مگر افسوس سے کہا جاتا ہے کہ ہمارے ملک کا مروجہ تعلیمی نظام اپنے مقاصد پورے کرنے میں ناکام رہا ہے۔۔آئے روز کچھ ذی شعور حضرات اس نظام کی خرابیوں کو بیان کرتے رہتے ہیں جس میں بہت سارے عوامل کارفرما ہیں۔۔تعلیمی اداروں کا محض کاروبار بن کہ رہ جانا ،توجہ تربیت کی بجائے مال بنانے پر رہنا ایک بہت بڑی وجہ ہے کہ ہمارے تعلیمی ادارے مطلوبہ افراد کار تیار نہیں کر رہے جو معاشرے کو درست بنیادوں پر استوار کر سکیں۔طلباء کو مثبت اور کارآمد سرگرمیوں میں مشغول رکھنے کی بجائے انٹر ٹینمنٹ کے نام پہ بے حیائی کے اندھے کنواں میں دھکیلا جا رہا ہے۔

گزشتہ کچھ عرصے سے دیکھنے میں آرہا ہے کہ اسکولز کالجز میں فیسٹیول کے نام پر میوزک اور فحاشی کی ترویج کی جا رہی ہے۔ پہلے پہل یونیورسٹیز میں مختلف مشہور و معروف گائیکوں کو بلا کر گانے بجانے کی مخلوط محفلوں عرف کنسرٹس کا آغاز ہوا جو کہ اب اتنا عام ہو چکا ہے کہ گویا جامعات کا آپس میں اسی پر مقابلہ جاری ہو کہ کون کتنے بڑے سنگر کا کنسرٹ کروا رہا ہے۔۔صد افسوس کہ جہاں بچوں کو ہنر مندی اور مثبت طرز عمل سکھایا جانا چاہیے وہاں Time kill کرنا سکھایا جا رہا ہے،والدین کے لاکھوں روپے برباد کر کے بچے ناچ گانا سیکھ رہے ہیں ۔۔

علاوہ ازیں اسکول کی سطح پر بھی یہ کام شروع ہو چکا ہے۔ کھیل اور پی ٹی کے نام پہ موسیقی کی دھنوں پہ ڈانس تو اسپورٹس کا حصہ کافی وقت سے بن چکا تھا اب باقاعدہ میوزک فیسٹیولز اور میوزک نائٹس شروع کی جا چکی ہیں جہاں کان پھاڑتی موسیقی ،طلبہ کا ناچ اور اس پر جھومتے والدین دیکھ کر دل کٹتا ہے کہ یہ جس لھو ولعب میں اتنا قیمتی انسان مشغول ہے۔۔پہلے اسکولز میں ایسے ترانے بچوں کو سکھائے جاتے تھے جو جذبہ حب الوطنی کی نشوونما کرتے تھے اب ایسے گانے سکھائے جا رہے ہیں جو زیادہ تر انگریزی زبان میں اور اخلاقی حدوں سے عاری ہوتے ہیں۔

ایک مسلمان ہونے کے ناطے یہ بات معلوم ہونی چاہیے کہ موسیقی ہمارے دین میں حرام ہے اور ایسی حرام اور حیاء باختہ چیز کا اتنا علی الاعلان اور پھر تربیتی اداروں میں استعمال ہمارے ایمانوں پر سوالیہ نشان ہے۔میرے نبی نے قیامت کی نشانیوں میں یہ بات بھی بیان کی کہ گانے بجانے کے آلات عام ہو جائیں گے۔۔۔۔سوال یہ ہے کہ کسی کا انفرادی عمل اپنی جگہ لیکن تربیتی اداروں میں ایسے مشغولات کی پذیرائی لمحہ فکریہ ہے۔جن بچوں کے معصوم اذہان میں بی بی شیرینی اور love is life ڈالا جائے گا وہ اپنا مقصد زندگی کس چیز کو بنائیں گے؟۔والدین اپنے خون پسینے کی کمائی اور اتنی محنت لگا کر اپنی اولادوں کو مائیکل جیکسن کے پیروکار بننے کے لئے تو ان اداروں کے حوالے نہیں کرتے۔۔

اتنی بڑی تعداد میں باقاعدہ کنسرٹس اور موسیقی کے پروگرامات کا ہونا بلا شبہ لمحہ فکریہ ہے ،ایک تو مخلوط نظام اوپر سے جذبات کو مہمیز کرتے ایسے پروگرامات اس انسان کو اپنے ہی جذبات کا غلام بنا رہے ہیں پھر بے حیائی اور فحاشی کو کوئی نہیں روک سکتا۔۔آئے روز خواتین کو ہراساں کئے جانے کے واقعات ایسے ہی عوامل کا نتیجہ ہیں۔ویسے بھی پچھلی ایک دہائی سے گرل فرینڈ بوائے فرینڈز کا کلچر ہماری جامعات میں عام ہو چلا ہے اب اسکولوں کی سطح پر جوچیزیں شروع ہو چکی ہیں یوں لگتا ہے کہ اسی کی بنیاد رکھی جا رہی ہے ۔۔

محکمہ تعلیم کو اس بات کانوٹس لینا چاہیئے اور تعلیمی اداروں کو پابند کرنا چاہیے کہ وہ fun n entertainment کے نام پہ تعلیمی اداروں کو clubs میں تبدیل نہ کریں۔۔میوزک فیسٹیول اور مختلف پارٹیز کی آڑ میں کلب کلچر کی ترویج کو بند کیا جائے۔۔۔۔والدین ان اداروں میں اولاد کو علمی ترقی اور کچھ اچھا سیکھنے کے لئے بھیجتے ہیں نہ کہ اخلاقی خرابی کے لئے۔دور جدید میں ویسے ہی بچوں کے ایمان و اخلاق پر فتنوں کی بھر مار ہے ایسے میں ماحول کی باطل نوازی سے جو والدین اپنے بچوں کو بچانے کے لئے کوشاں ہیں اور ہر ممکن کوشش کرتے ہیں کہ ان کا گھر ان غلاظتوں سے بچے وہ تعلیمی اداروں کے ماحول سے پریشان ہیں۔۔خدارا تعلیمی اداروں کو علم وہنر اور مثبت اخلاق کی ترویج کا مرکز بنائیے اور انہیں فحاشی کے اڈے بننے سے بچائیے۔