اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ خیبرپختونخوا کے بلدیاتی انتخاباتی نتائج سے تحریک انصاف کو اپ سیٹ شکست ہوئی ہے اور انکی تبدیلی کا رْخ موڑ دیا ہے۔ خیال رہے کہ خیبر پختونخوا کے بلدیاتی انتخابات کے پہلے مرحلے میں حکمران جماعت پی ٹی آئی کو ہوم گرائونڈ پر شکست کا سامنا کر نا پڑا اور پشاور تحریک انصاف کے ہاتھ سے نکل گیا۔
جے یو آئی 18سیٹوں کے ساتھ پہلے نمبر پررہی ، جبکہ بلدیاتی انتخابات میں پی ٹی آئی کے 14امیدوار کامیاب ہوئے،اے این پی نے 8نشستوں پر کامیابی حاصل کی، دس آزاد امیدوار بھی کامیاب ہو گئے، مسلم لیگ ن 3 ، جماعت اسلامی کی 2نشستیں، پیپلزپارٹی اور تحریک انصاف پاکستان کا ایک ایک رکن چیئرمین بن گیا۔چار بڑے شہروں کے میئرز کے الیکشن میں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کا صفایا ہو گیا، کوہاٹ، پشاور اور بنوں کے میئرز کا انتخاب جمعیت علمائے اسلام (ف) نے جیت لیا جبکہ مردان کی میئر شپ عوامی نیشنل پارٹی کے نام رہی۔
خیبر پختونخوا میں بلدیاتی حکومتوں کے انتخابات کے پہلے مرحلے کے لیے پشاور، نوشہرہ، چارسدہ، مردان، صوابی، کوہاٹ، خیبر، مہمند، ہنگو، بنوں، کرک، لکی مروت، ڈیرہ اسمٰعیل خان، ہری پور، بونیر، ٹانک اور باجوڑ میں پولنگ ہوئی۔بلدیاتی حکومتوں کے انتخابات کے لیے 9 ہزار سے زائد پولنگ اسٹیشنز اور تقریباً 29 ہزار پولنگ بوتھ قائم کیے گئے تھے جن میں سے 2 ہزار 500 سے زائد کو انتہائی حساس اور 4 ہزار 100 سے زائد پولنگ اسٹیشنز کو حساس قرار دیا گیا۔ مجموعی طور پر 19ہزار 282 امیدواروں نے 2 ہزار 359 ولیج اور نیبرہڈ کونسلوں میں جنرل نشستوں پر انتخاب میں حصہ لیا جبکہ وی سی این سیز کی اتنی ہی نشستوں کے لیے خواتین امیدواروں کی تعداد 3 ہزار 905 تھی۔
اسی طرح کسانوں اور مزدوروں کی نشستوں کے لیے 7 ہزار 513، نوجوانوں کے لیے 290 اور اقلیت کے لیے 282 امیدواروں نے انتخابات میں حصہ لیا، علاوہ ازیں خیبر پختونخوا کے 17 اضلاع کی 63 تحصیل کونسلز کے میئر یا چیئرمین کی نشستوں کے لیے 689 امیدوار میدان میں اْترے۔الیکشن میں دوسرے نمبر پر پاکستان تحریک انصاف صوبائی حکومت ہونے کے باوجود ابھی تک کوئی میئر کا الیکشن نہ جیت پائی، تاہم 14 تحصیل چیئر مینوں کے الیکشن میں فاتح قرار پائی۔تحریک انصاف کے کئی اہم رہنما اپنے حلقوں میں پارٹی کو شکست سے نہ بچا سکے، بلدیاتی انتخابات کے پہلے مرحلے میں اہم وزرا کے ’مضبوط‘ رشتہ داروں سمیت متعدد بڑے برج الٹ گئے۔
اسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر اور صوبائی وزیر شہرام ترکئی کے ضلع صوابی کی تین تحصیلوں ٹوپی ، لاہور اور زرڑ میں پی ٹی آئی کے امیدوار ہار گئے۔وزیر سائنس و ٹیکنالوجی شبلی فراز کے آبائی ضلع کوہاٹ میں تحریک انصاف میئر شپ کے انتخاب میں شکست سے دوچار ہوئی۔ وزیر مملکت شہریار آفریدی اپنی یونین کونسل سے بھی اپنے امیدوار کو جیت نہ دلوا سکے۔وزیر مملکت علی محمد خان کے شہر مردان میں بھی پی ٹی آئی امیدوار میئر کی سیٹ پر ناکام رہا۔وزیر دفاع پرویز خٹک کے قومی اسمبلی کے حلقے میں شامل تحصیل پبی سے تحریک انصاف کو شکست ہوئی، وفاقی وزیر عمر ایوب کے آبائی علاقے ہری پور کے تین تحصیل چیئرمینوں کی نشستیں نواز لیگ اور آزاد ارکان لے اڑے۔
ڈپٹی اسپیکر خیبرپختونخوا اسمبلی محمود جان کے بھائی احتشام خان متھرا سے ہار گئے۔صوبائی وزیر جنگلات اشتیاق ارمڑ تحصیل چمکنی میں اپنے امیدوار کو کامیاب نہ کرا سکے۔ جبکہ خیبر پختونخوا باقی18 اضلاع میں بلدیاتی انتخابات دوسرے مرحلے میں ہونے ہیں جس سے صوبے کے عوام کی رائے مزید واضح ہو کر سامنے آ جائے گی۔ یہ صورتحال بہرطور پی ٹی آئی کے لیے لمحہ فکریہ ہے اور اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ عوام وفاقی حکومت کی پالیسیوں سے ناخوش ہیں بالخصوص مہنگائی کے ہاتھوں زچ ہو چکے ہیں۔ اگر وزیراعظم عمران خان واقعی اپنی اور اپنی جماعت کی ساکھ بچانے کیلئے سنجیدہ ہیں تو انہیں ہنگامی بنیادوں پر ایسے اقدامات کرنا ہوں گے جن سے عوام کو ریلیف ملے ۔ یہ کہنا غلط نہیں کہ پی ٹی آئی کے لیے اس دھچکے سے باہر نکلنا مشکل ہو رہا ہے ۔
وزیر اعظم نے سماجی رابطوں کی ویب سائیٹ ٹوئیٹر پر اپنے پیغام میں لکھا کہ ‘پی ٹی آئی سے خیبر پختونخوا بلدیاتی انتخابات کے پہلے مرحلے میں غلطیاں ہوئیں جسکی قیمت چکانا پڑی، الیکشن کیلئے غلط امیدواروں کا انتخاب ایک بڑا سبب تھا۔ اب سے ذاتی طور پر پی ٹی آئی کی بلدیاتی انتخابات کی حکمت عملی اور آنے والے دوسرے مرحلے کی خود نگرانی کروں گا ، انشاء اللہ پی ٹی آئی مضبوط ہو کر سامنے آئے گی۔تاہم دوسری جانب خیبر پختون خوا بلدیاتی انتخابات میں پی ٹی آئی کی شکست کی تحقیقاتی رپورٹ عمران خان کو پیش کر دی گئی، ناقص کارکردگی پرگورنر کے پی، اور اسپیکر اسد قیصر سمیت 9 اراکین قومی اسمبلی ذمہ دار قرار اس کے ساتھ ساتھ رپورٹ میں افراط زر، مہنگائی، پارٹی کے اندرونی اختلافات کو بھی شکست کی وجہ قرار دیا گیا ہے۔
بلاشبہ خیبر پختونخوا میں پاکستان تحریک انصاف کی شکست حکومتی پالیسیوں پر عوام کا واضح عدم اعتماد ہے۔ عوام نے ووٹ کی طاقت سے پی ٹی آئی کے امیدواروں کو آئینہ دکھایا ہے۔ خیبرپختونخوا سے آنے والی تبدیلی کا اثر پورے ملک پر پڑے گا۔ مہنگائی نے عوام کا جینا دوبھر کر دیا ہے۔ پی ٹی آئی نے جس انداز میں مختلف اداروں میں اعلیٰ سطح کے تبادلے کیے اس سے ناصرف انتظامی خرابیاں پیدا ہوئیں بلکہ عوامی سطح پر بھی بداعتمادی میں اضافہ ہوا۔ حکومت وقت کوذہن نشین رکھنا ہو گا کہ غریب طبقہ مسلسل پِس رہا ہے، مہنگائی میں روز افزوں اضافہ ہو رہا ہے۔ تعلیم اور علاج معالجے کی اچھی اور بہتر سہولیات عوام کیلئے محض ایک خواب بن کر رہ گئی ہیں۔ موجودہ حکومت کے سیاسی وعدوں میں معیشت کی بہتری اور عوام کی خوشحالی بھی شامل تھی مگر ان ڈھائی سالہ دور میں عوام کی خوشحالی ایک سوالیہ نشان بن چکی ہے۔
چنانچہ حکومت کو آئندہ انتخابات کے دوسرے مرحلے میں مزید شکست سے بچنے کیلئے ایسی عملی اور دیر پا معاشی پالیسیاں تشکیل دینے کی ضرورت ہے جو حقیقی معنوں میں ملک کے غریب طبقے کی مشکلات میں کمی لا سکیں اور وہ بھی آسودہ اور سہل زندگی گزار سکیں۔ایک بات جو سب سے اہم ہے کہ پی ٹی آئی کی کے پی کے ،کے بلدیاتی الیکشن میں ناکامی کے باوجود بھی وزیر اعظم عمران نے ذرہ بھر مایوس نہیں دکھائی دئیے وہ اس لیے کہ عمران خان ایک مضبوط اعصاب کا مالک انسان ہے اور وہ حکمران نہیں بلکہ ایک لیڈر ہے جوکہ اگلی آنے والی نسل کا سوچ رہا ہے ۔اورجو یہ سمجھتے ہیں کہ وہ بلدیاتی الیکشن میں پی ٹی آئی کو شکست دے چکے ہیں وہ غلط سوچ رہے ہیں ۔پہلی بات کہ عمران خان اگر شکست کا خوف رکھتا تو کبھی بلدیاتی الیکشن ہی نہ کرواتا اور دوسری بات کہ اس الیکشن میں کوئی بھی سیاسی جماعت دھاندلی کی بات نہیں کرسکتی کیونکہ اگر دھاندلی ہوتی تو حکومتی جماعت کبھی بھی نہ ہارتی ۔برحال وزیر اعظم عمران خان عوام سے کیے ہوئے وعدے پورے کریں تاحال وہ آنے والے الیکشن میں تاریخی شکست سے بچ سکیں۔