نئے سال کا تحفہ منی بجٹ مہنگائی

سال 2021 ء اختتام کو پہنچا ، جو کہ غریب پاکستانیوں کیلئے انتہائی مشکل سال رہا۔ پورے سال ہونے والی مہنگائی اور اشیائے خوردو نوش کی قیمتوں میں اضافے نے شہریوں کی زندگی اجیرن بنائے رکھی۔ اور اب سال نو کے آغاز پر حکومت نے منی بجٹ کی صورت میں شہریوں پر مہنگائی بم گرادیا ہے۔ آئی ایم ایف کی شرط پر بنایا گیا منی بجٹ ملک کے لیے تباہی کا نسخہ ہے ، کچن آئٹمز، ادویات، صنعتی و زرعی سامان، ہوٹلنگ، کمپیوٹرز، موبائل فون اور کاروں سمیت تقریباً 144 سے زائد اشیاء پر17 فیصد سیلز ٹیکس وصول کرکے 360 ارب روپے حاصل کئے جائیں گے جس کے باعث مہنگائی کا ایک نیا سیلاب آنے کا خدشہ ظاہر کیا جارہا ہے ۔

غریب پاکستانی پہلے ہی معاشی بے یقینی کی صورتحال کی وجہ سے فکر مند ہیں۔ غریب و مزدور طبقے کے لیے دو وقت کی روٹی جوئے شیر لانے کے مترادف ہے ۔ ملک کے بیشتر افراد کے لیے جسم و جان کا رشتہ برقرار رکھنا مشکل ہوچکا ہے۔ لوگ بے روزگاری کا شکار ہورہے ہیں، حالات سے مجبور ہوکر خود کشیاں کررہے ہیں۔ ان حالات میں منی بجٹ کے اثرات سے مہنگائی کا پہلے سے بلند گراف مزید بلند ہو جائے گا۔ کورونا کے اس دور میں جبکہ آمدنیوں میں اضافہ متوقع نہیں یہ اضافی بوجھ عوام کی مالی مشکلات کو دوچند کرنے کا باعث بنے گا اور اس کے نتیجے میں غربت کی شرح بڑھنے کے اندیشے کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔

اقتدار میں آنے سے قبل تحریک انصاف کے رہنما اپنے دھرنوں، جلسوں اور ریلیوں میں بلند و بانگ دعوے کرتے کہ ان سے بڑا عوام کا خیر خواہ اور کوئی نہیں ہوسکتا۔ وہ ملک سے مہنگائی ، بے روزگاری اور کرپشن کا خاتمہ کرنے کی بات کرتے، اور یہ بھی کہتے کہ ان کے دور حکومت میں غریبوں کو ریلیف ملے گا اور عوام خوشحال ہوں گے ۔ ان کے یہ دعوے سن کر عوام پاکستان کو یوں لگا جیسے یہی ان کے مسیحا اور ان کے دکھوں کا مداوا کرنے والے لوگ ہیں۔ مگر اقتدار میں آنے کے بعد پاکستان تحریک انصاف اور تبدیلی کے دعویداروں نے سب سے زیادہ عوام پاکستان کو مایوس کیا ہے۔ کیونکہ جس دن سے پاکستان تحریک انصاف برسر اقتدار آئی ہے عوام کو میسر تمام ریلیف اور سبسڈیاں ختم کردی گئی ہیں، اس کے علاوہ روز بروز بڑھتی مہنگائی کا سلسلہ ہے کہ رکنے کو نہیں آرہا۔ اس وقت صورتحال یہ ہے کہ دکاندار کیلئے دکان کھولنا مشکل، فیکٹری مالکان کیلئے فیکٹری چلانا مشکل، تاجر کیلئے تجارت کرنا مشکل اور کسان کیلئے کاشتکاری مشکل ترین ہوگئی ہے ۔ بجلی ، گیس، پٹرولیم مصنوعات، آٹا ، گھی ، چینی سمیت اشیائے خورد و نوش کی قیمتوں میں اضافہ کرتے ہوئے مہنگائی کے طوفان کا سامنا کرنے کے لیے عوام کو بے آسرا چھوڑ دیا گیا ہے ۔اور یوں لگتا ہے جیسے بہ حیثیت قوم ہم اس کشتی کے مسافروں کی طرح ہیں جو موجوں کے رحم و کرم پر ہو۔

ہر آنیوالا حکمران جانے والے کو ملک کی معاشی بدحالی و بربادی کا ذمہ دار ٹھہراتا ہے۔ ملک و قوم پر قرضوں کے بوجھ اور خزانہ خالی کا قصور وار سابقہ حکمرانوں کو قرار دیتا ہے ۔لیکن موجودہ حکمران نئے طریقوں اورانداز سے قوم کو بہلانے کی کوشش کر رہے ہیں۔سابقہ حکمرانوں کو چور کہنے والے موجودہ حکمرانوں کا کہنا ہے کہ وہ جاتے ہوئے سب لوٹ کر لے گئے ۔کرپشن کا ایسا بازار لگایا تھا کہ تین ساڑھے تین سال سے ہم سراغ لگاتے لگاتے تھک گئے لیکن سابقہ حکمرانوں کی کرپشن کی داستانیں ختم نہیں ہو رہی ہیں۔ الغرض اس طرح کی بے شمار باتیں کی جا رہی ہیں لیکن حسب سابق یا حسب روایت قوم کی حالت کی تبدیلی اور بہتری کے لئے ایک انچ بھی قدم نہیں بڑھایا گیا۔ اور آج تحریک انصاف کے دور حکومت میں بھی کرپشن ہورہی ہے ، میرٹ کی دھجیاں بکھیری جارہی ہیں۔ موجودہ حکمران جو کل تک کہتے تھے پٹرول کی قیمت عالمی مارکیٹ سے 45 روپے لیٹر زیادہ ہے، اور اب وہ عوام پر براہ راست اثر انداز ہونے والے حکومتی ٹیکسوں میں پے در پے اضافہ کررہے ہیں۔ جس پر شہری چیخ رہے ہیں کہ اگر غریب پاکستانیوں کے زخموں کا مداوا کرنے کی بجائے مہنگائی و گرانی کا سونامی ہی لانا تھا تو پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کی حکومت ان سے بہتر تھی۔ پاکستانی قوم گزشتہ 74 سالوں سے کبھی کسی فوجی ڈکٹیٹر تو کبھی کسی جمہوری حکومت کے دعوؤوں اور وعدوں کے سہارے محض جوتیاں گھساتی چلی آئی ہے مگر نتیجہ یہ نکلا کہ آج قوم کا ہر فرد ڈھائی لاکھ روپے سے زائد کا مقروض ہے جبکہ یہاں محنت کش کے دونوں ہاتھ خالی ہیں۔

پاکستان میں بد سے بدترین حالات میں جمہوری حکومتیں وجود میں آتی رہی ہیں لیکن کسی حکومت کے بارے میں یہ کہنا غلط نہ ہو گاکہ ابھی وہ اپنے پاؤں پر چلنے کے قابل بھی نہیں ہوتی ، اور جلد ہی عوام اس کی کارکردگی دیکھ کر مایوسی کا اظہار کرنے لگتے ہیں ۔ عمران خان کی حکومت بھی جس رفتار سے چل رہی ہے اس میں کردار سے زیادہ گفتار سے کام لیا جا رہا ہے، اور کچھ کر دکھانے کی بجائے ہر روز ایک نئی طفل تسلی کا اعلان ہوجاتا ہے ، یوں تین ساڑھے تین سالہ کے حکومتی اقدامات محض ہاتھ باندھنے کی حکمت عملی سے زیادہ نہیں۔ نہایت تشویش کی بات یہ ہے کہ گزشتہ ساڑھے تین سالوں میں مہنگائی میں تو کئی گنا اضافہ دیکھنے میں آیا ہے لیکن نہ تو ملازمت پیشہ افراد کی تنخواہوں اور مراعات میں کوئی اضافہ ہوا ہے اور نہ ہی ترقیاتی کاموں کی سرگرمیوں میں اتنا اضافہ ممکن بنایا جاسکا ہے کہ عوام مہنگائی کے مقابلے میں جم کر کھڑے ہو سکیں۔ ایک جانب بے لگام مہنگائی نے عوام کی زندگی کو اجیرن بنا کر رکھ دیا ہے تو دوسری جانب حکومتی حلقوں کی جانب سے عوام کے رستے زخموں پر یہ نمک پاشی جاری ہے کہ پاکستان میں مہنگائی خطے کے دوسرے ممالک سے بہت کم ہے ۔ ہمارے ملک کا ایک بڑا حصہ غریب اور متوسط طبقے سے تعلق رکھتا ہے اپنے بڑھتے مسائل کی وجہ سے ناامیدی کی جانب بڑھ رہا ہے اور بد قسمتی سے کوئی ایسا لیڈر نظر نہیں آرہا جو اس غریب طبقے کے درد کو اپنا درد سمجھ کر حل کرنے کی ہمت کر سکے ۔

حصہ
mm
رانا اعجاز حسین ایک منجھے ہوئے قلم کار ہیں وہ مختلف اخبارات و جرائد اور ویب پورٹل کے لیے لکھتے رہتے ہیں۔