موجودہ سیاسی صورتحال اور عوامی احتساب

موجودہ ملکی سیاسی حالات کا سچ کی سوچ کے ساتھ جائزہ لیا جائے تو پاکستان کی حسب سابق سیاسی روایت کے مطابق اقتدار کے حصول کیلئے پاکستان تحریک انصاف کو عوام کے سامنے کئے گئے بے بنیاد جذباتی دعوے اور وعدے لے ڈوبے حکومت ملنے کے بعد بھی ناتجربہ کاری کی وجہ سے بیسیوں ایسے بے بنیاد عوامی ریلیف کے پروگراموں کا اعلان کیا گیا جن پر ملکی معاشی حالات کے مطابق عملدرآمد ناممکن نہیں تو مشکل ضرور تھا۔

چند ایک میں جزوی کامیابی کے علاوہ باقی سب پروگرام اب تک کی ناکامی کی وجہ سے جھوٹ میں شامل ہو گئے مقامی اور امپورٹڈ مشیروں،وزیروں، ترجمانوں اور ڈیفینڈروں نے بھی جھوٹ اور بلا ضرورت چاپلوسی کا سہارا لینے کو ہی اپنے فرائض منصبی سمجھا اور حاکم وقت کو سب ٹھیک ہے کی رپورٹ دیتے رہے سچے،مخلص اور سنجیدہ لوگوں کو بادشاہ کی مجلس سے دور کر دیا اور از خود ہنوز دلی دور است کا راگ الاپتے رہے اور عوام کے بگڑتے حالات کو بے تکی اور نہ سمجھ آنے والی دلیلوں کے زریعے ڈھانپتےاورقابو کرتےرہے آج انٹرنیشنل مہنگائی کی دلیلوں کو بھی عوام نے دیگر وجوہات کے ساتھ ساتھ اس لئے بھی رد کر دیا کہ حکومت ملنے کے فوری بعد چینی کی بلا جواز قیمت میں اضافہ اور آٹے کا بحران پیدا ہوا دوائیوں کی قیمتیں بڑھنا شروع ہو گئیں اس وقت نہ تو کرونا آیا تھا نہ ہی انٹرنیشنل لیول پر مہنگائی ہوئی تھی تینوں اسکینڈل سامنے آئے انکوائری ہوئی زمہ داروں کا تعین ہو گیا لیکن جب مڑ کے کمین گاہ کی طرف دیکھا تو تیر چلانے والوں میں اکثریت اپنوں کی ہی نکلی۔

مٹی پاؤ تے ڈنگ ٹپاؤ والی پالیسی اپنائی گئی کسی زمہ دار کے خلاف کوئی ایسی کارروائی نہیں کی گئی جو عوام کو نظر آئی ہو یہ اس حکومت کی طرف سے عوام کو پہلا جھٹکا دیا گیا جس کی وجہ سے حکومتی رٹ عوام کی نظروں میں کمزور نظر آنا شروع ہو گئی حکومت نے بے شمار نوٹس بھی لئے لیکن ہر حکومتی نوٹس نے الٹا اثر دکھایا تو حکومتی نوٹسوں کا مذاق اڑایا جانے لگا اداروں اور بازاروں میں حکومتی رٹ مزید کمزور ہوتی گئی اس کے بعد اپنوں کے ساتھ ساتھ پرائیوں کی بھی حوصلہ افزائی ہو گئی مفاد پرست کھل کر میدان میں کود پڑے اور پھر سب نے اپنا حصہ بقدرے جسہ عوام کی جیبوں اور حکومتی خزانوں سے نکالنا شروع کر دیا جس کا عرف عام میں نام کرپشن لیا جاتا ہے اور اسی کرپشن کے خاتمے کے بیانئے کے نام پر عوام نے موجودہ حکومت کو ووٹ دیا تھا جس میں کمی کی بجائے بظاہر اضافہ نظر آنا شروع ہو گیا اور کرپشن کے خاتمے کے بیانئے کو بہت بڑا دھچکا لگا جس سے عوام بتدریج مایوس ہوتی گئی اور روٹی روزی کی فکر میں تسلسل کے ساتھ اضافہ ہوتا گیا جو اب تک جاری وساری ہے۔

عوام لٹنا شروع ہو گئی جو آج تک لٹ رہی ہے خود ساختہ مہنگائی نے انٹرنیشنل مہنگائی کا روپ اختیار کر لیا اور اگلا پچھلا سارا حساب اس چادر کے نیچے چھپ گیا یا چھپانے کی کوشش کی گئی کسی لوٹنے والے کا احتساب نہ ہو سکا جب عوام کو احتساب کا موقع ملا تو عوام نے ضمنی انتخابات اور اس کے بعد خیبر پختونخواہ کے الیکشن میں احتساب کیا اور خوب کیا اور اس حکومت کے امیدواروں کو بھرے میدان میں لتاڑ دیا جو صوبے میں تسلسل کے ساتھ گزشتہ 8 سال سے بلا شرکت غیرے حکومت کر رہی ہے اور وزیراعظم عمران خان نے الیکشن 2018 کی کمپین کے دوران اور مرکز میں حکومت ملنے کے بعد تقریباً ہر جلسے اور عوام کے ساتھ خطاب میں اپنی پارٹی کی خیبرپختونخوا میں لائی گئی اصلاحات کی مثالیں فخریہ انداز میں پیش کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیا،اس کے باوجود پنجاب میں مختلف موقعوں پر ہونے والے ضمنی انتخابات اور خیبرپختونخوا میں ہونے والے پہلے فیز کے الیکشن میں حکومتی پارٹی اور اس کے دعوؤں کو تقریباً مکمل طور پر مسترد کرتے ہوئے حکومتی پارٹی کے امیدواروں کو بھی مسترد کر دیا جس کا مطلب یہ لیا جا سکتا ہے کہ عوام نے موجودہ حکومت سے جو امیدیں وابستہ کر رکھی تھیں حکومت اب تک ان پر پورا نہیں اتر سکی اور عوام مایوس ہو گئی۔

لیکن حکومتی پارٹی اب بھی اس ہار کی حقیقی وجوہات کو تقریباً نہ تسلیم کرتے ہوئے جتنے منہ اتنی باتیں کے حساب سے مختلف جوازات پیش کرنے پر بضد ہے مثلاً حکومتی پارٹی کے تجزیہ نگاروں اور زمہ داروں کی طرف سے یہ جواز بڑھا چڑھا کر پیش کیا جا رہا ہے کہ ٹکٹوں کی تقسیم میں غلطی ہوئی یعنی ٹکٹ ورکرز کی بجائے تقسیم کاروں اور زمہ داروں نے اپنے عزیز و اقارب اور بھانجوں بھتیجوں کو دے کر نوزانے کی کوشش کی گئی جس کو عوام نے مسترد کر دیا اور پارٹی سیٹیں ہار گئی جبکہ اس جواز کو ایک حد تک ہی درست مانا جا سکتا ہے لیکن یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ عوام ووٹ پارٹی کے عوام کو ریلیف دینے کیلئے اٹھائے گئے اقدامات کو مد نظر رکھتے ہوئے کرتی ہے، گڈ اور بیڈ گورننس دیکھ کر کرتی ہے نہ کہ امیدواروں کے چہرے اور رشتے ناطے دیکھ کر کرتی ہے اور کافی حد تک یہ بھی نہیں دیکھتی کہ امیدوار اپنی پارٹی کا کتنا رئیل ورکر ہے۔

اس پر بس اتنا کہا جا سکتا ہے کہ (دل کو بہلانے کیلئے غالب یہ خیال اچھا ہے) حکومت کو اپنے جواز کو ثابت کرنے کیلئے گھوڑے بھی باقی ہیں میدان بھی موجود ہے اگلے ماہ خیبرپختونخوا کے دوسرے فیز کا الیکشن اور چند ماہ بعد پنجاب میں متوقع بلدیاتی الیکشن جس میں حکومت کو اپنی بیان کردہ غلطیاں اور پیش کردہ جواز کو ثابت کرنے کا موقع موجود ہے، لیکن میری نظر میں اب بھی قوم کے جذبات اور درپیش مسائل کو نظر انداز کرتے ہوئے حقائق سے نظر پوشی کی گئی تو باقی ماندہ بلدیاتی الیکشن کے ساتھ ساتھ جنرل الیکشن میں عوام کا احتساب اس سے بھی کڑا ہو سکتا ہے جیسا پاکستان پیپلز پارٹی ایک تجربہ کار پارٹی ہونے کے باوجود بھگت چکی ہے جبکہ پاکستان تحریک انصاف تو ابھی سیاسی لیبارٹری میں تجربات کے مراحل طے کر رہی ہے،آخر میں بس اتنا کہا جا سکتا ہے کہ سچ چھپا کر جھوٹ بولنے کا یہ سلسلہ جاری رہا۔

چوروں،لٹیروں, کرپشن کی گندگی سے لتھڑے ہوئے اپنوں اور پرائیوں کا بلا تفریق احتساب نہ کیا گیا عوام کو فوری ریلیف نہ دی گئی،عوام کی زندگیوں میں آسانیاں پیدا نہ کی گئیں، حقائق کو تسلیم نہ کیا گیا تو عوام کا احتساب دیگر صوبوں کے بلدیاتی الیکشن اور آنے والے جنرل الیکشن تک جاری رہے گا جو کڑے سے کڑا ہوتا جائے گا جو احتساب حکومت اور حکومتی ادارے کرنے میں اب تک ناکام رہے لگتا ہے وہ احتساب عوام نے از خود کرنے کی ٹھان لی ہے قوم 74 سال سے اس کے ساتھ کھیلا جانے والا کھیل دیکھ دیکھ کر دل برداشتہ ہو چکی ہے صبر کا پیمانہ لبریز ہو چکا ہے اور قوم نے گھبرانا شروع کر دیا ہے سیاستدانوں کی جھوٹی راکٹ سائنس قوم سمجھ چکی ہے جس کے زریعے ہر حکومت نے عوام کو چاند پر بسا کر چاند سے کھیلنے کا موقع فراہم کرنے کی باتیں کیں اور حقیقت میں زمین پر بسیرا بھی مشکل سے مشکل ترین بنا دیا 74 سال سے لاکھوں جانوں کی قربانیاں دے کر کلمے کے نام پر حاصل کی گئی مملکت خداد اور اس کے باسیوں کے ساتھ مفاد پرستوں کا کھلواڑ جاری ہے اس ملک کو لوٹنے اور عوام کے ساتھ دھوکا کرنے والوں کو اب یہ سمجھ لینا چاہیے کہ اب یہ کھیل زیادہ عرصہ چلنے والا نہیں ہے اپنا اپنا قبلہ مزید وقت ضائع کئے بغیر درست کر لیں ورنہ یاد رکھیں نہ رہے گا بانس نہ بجے گی بانسری۔ اللہ کریم ہم سب کا حامی و ناصر ہوا

حصہ