لو ایک اور سال بیت گیا نجانے ہم اللہ تعالی کے مقرّب بنے یا اللہ تعالی کے غصے کا باعث ہے لیکن اندازہ لگایا جائے تو یہ بات ثابت ہو جاتی ہے کہ گزشتہ سال سے اس سال میں زیادہ ڈپریشن والا معاشرہ نظر آیا ہے۔
مادیت اور شہرت کے دور میں ہر کوئی بھاگ رہا ہے چاہے وہ بچہ ہو جوان ہو بوڑھا سوشل میڈیا نے جہاں لوگوں کو شارٹ کٹ طریقے سے شہرت حاصل کرنے کا ذریعہ بتایا وہ اپنے پیاروں سے بات کرنے کے لیے ترس جاتا ہے اتنے قریب ہو کر بھی اپنوں کے درمیان بہت سارے فاصلے پیدا کر گیا۔
مہنگائی کا طوفان بنیادی ضرویات کی عدم فراہمی لاک ڈاؤن کے باعث بے روز گاری میں اضافہ وارداتوں میں اضافہ اسکے ساتھ مینار پاکستان کا واقعہ ایک بے حس معاشرے کی ایک جھلک نظر آتی ہے پولیس اسٹیشن کا جلانا عدلیہ کے نظام سے عوام کا مطمئن نہ ہونا حکومت کی ناکامی کا منہ بولتا ثبوت ہے سانحہ سیالکوٹ میں عورتوں کو مارا گیا جہالت کی ایک جھلک ہے
مجموعی طور پر یہ واقعات ایک ایسے معاشرے کی نشاندہی کر رہی ہے جہاں کوئی قانون انصاف عزت و مال کا تحفظ نظر نہیں آتاسال گزرتے جائیں گے خدا نہ کرے اس سےبد تر حالت نہ ہو۔۔جہاں اتنے واقعات ہوۓ وہاں اصلاحی بیانات اور دروس کو پسند کرنے والوں کی تعداد میں اضافہ ہوا انساں نیک فطرت ہوتا ہے نیکی کو پسند کرتا ہے نوجوان ایسے ہی پیج کو پسند کرنے لگے ہیں وہ وقت دور نہیں جب لوگ نیک قیادت کو ہی منتخب کریں گے
معاشرے کی اصلاح کے لیے عملی اقدامات اٹھانے کی اشد ضرورت ہے ہماری حقیقی فلاح اور نجات صرف اور صرف اسلامی نظام زندگی کا قیام ہے اسی سے معاشرہ پُر امن اور پُرسکون ہو سکتا ہے وقت ابھی گیا نہیں ہے فیصلے کا اختیار آپ کو ہے اچھی ایماندار قیادت کو سامنے لے کر آنا ہم سب کی ذمہ داری ہے۔