فیصل مجاہد بھائی کاتعلق لاہور سے ہے ، یہ وہی صاحب ہیں جنہوں نے مجھ سمیت کئی لوگوں کو اسلامی جمعیت طلبہ سے متعارف کروایا ۔ میں جمعیت میں سنہ 2000ء میں شامل ہوا تھا ۔لاہور سے تعلق تھا تو اس وقت برہان بھائی ناظم لاہور تھے اور اسد جمال اکبر بھائی معتمد تھے۔ غالباً مشتاق خان اُس وقت ناظم اعلیٰ تھے جو آج ایک سینیٹر بھی ہیں ۔میں 2000ء میں رفیق بنا تھا اور پھر اس کے بعد 2009میں رکن بنا تھا۔ میں اتنا عرصہ کہاں تھا۔۔۔؟؟؟
میں نے میٹرک 2004ء میں پاس کیا تھا، میرے پاس ایم اے او کالج میں داخلے کے سواء کوئی اور راستہ نہیں تھا۔ نمبر کم تھے اور مجھ جیسے نالائق پر کوئی رسک لینے کو تیار ہی نہیں تھا۔ میں اس ضمن میں کچھ اور سمجھتا ہوں لیکن خیر اب وقت گزر چکا تھا۔ میں کالج میں داخل ہوا تھا بالکل ایک نوجوان سا لڑکا تھا۔ کالج میں جمعیت کا کوئی سیٹ اپ نہیں تھا اور وہاں پر ایک ہی نام جپتا تھا‘ ایم ایس ایف۔اسی دوران میں کالج میں کوئی جھگڑا ہوا‘ میرے اندر کا مارشل آرٹسٹ نکل کر سامنے آیا‘ سامنے والا زمین پر تھا اور میں کالج سے غائب ہو چکا تھا۔
بعد میں علم ہوا کہ جس کو مارا تھا وہ ایم ایس ایف کا ایک عہدیدار سنی پرنس تھا۔ یہ بات میرے والد کو معلوم ہوئی اور مجھے اُس دن شام کو فیصل بھائی کا فون آیا اور انہوں نے مجھے سمجھایا کہ جمعیت نے تمہیں یہ تربیت تو نہیں دی تھی ۔ تم کس راہ پر نکل چکے ہو۔ میں نے اُن کی بات سنی ان سنی کر دی اور یہ طے کر لیا کہ میں نے کالج تو جاناہی ہے ‘ چاہے میں ایک دن کیلئے ہی کیوں نہ جاؤں۔
چند ہفتوں کے بعد میں کالج گیا، میری جیب میں میاں اظہر کا ایک رقعہ موجود تھا ،میاں اظہر کا اُس وقت ایک اثر و رسوخ تھا،یونین لیڈر کا نام مجھے بھول رہا ہے ، شاید وہ شاہد شیخ تھا، میں نےاُس سے ملاقات کی اور وہ کاغذ کی چٹھی اُس کو دے دی، اُس لکھی ہوئی تحریر پڑھ کر مجھے بٹھایا اور مخالف کے ساتھ میری صلح کر وا دی۔ یہاں سے میرا ایم ایس ایف کے ساتھ ایک تعلق بنا،تاہم میں اُن کے تنظیمی سیٹ اپ کا حصہ نہیں تھا جس کی ان کی جانب سے متعدد کوششیں ہوئی تھیں۔ کالج میں ایک گروہ بن چکا تھا اور حقیقت یہ ہے کہ وہ ایک دلدل تھی، جس میں دن بدن میں دھنستا جا رہا تھا، مجھے اس بات کا احساس نہیں تھا۔
خود سوچیں کہ سولہ سترہ سال ہی عمر میں جب آپ کالج میں داخل ہو اور ایک لڑکا آپ کا بیگ تھامے، ایک آپ کی کرسی ٹھیک کرے، یونین عہدیدار آپ سےآپ جناب کر کے بات کریں، اساتذہ آتے جاتے سلام کر کے جائیں، اسلحہ آپ کیلئے کھلونا بن جائے کہ جب جی چاہا گراونڈ میں جا کر راونڈز فائر کر لئے اور جب جی چاہا کلاس میں گئے اورنہیں دل کیا تو گراونڈ میں بیٹھ گئے تو آپ کا ذہن کس مقام پر ہوگا؟ یہ عوامل کسی بھی عام نوجوان کا دماغ آسما ن پر لے جانے کیلئے کافی ہیں۔ میں بھی اُن میں ہی شامل تھا، دن بدن بُڑی صحبت کے باعث خراب ہو رہا تھا۔ لاہور بھر کے تھانوں کا مجھے کوئی خوف نہیں تھا۔ اہل جمعیت سے رابطہ بالکل ختم ہو چکا تھا اور اب میں اپنی تما م تر بیت کو یکسر بھلا کر ایک نئی راہ پر اندھوں کی طرح سے دوڑ رہا تھا۔ میں نہیں جانتا تھا کہ یہ راہ مجھے کہا لے جا رہی ہے لیکن میں سر پٹ دور رہاتھا۔
میں آج جب اپنے ماضی پر نظر ڈالتا ہوں تو مجھے محسوس ہوتا ہے کہ اُس دورانئے میں شاید میں نے اللہ کو تقریباً بھلا دیا تھا لیکن اللہ نے مجھے نہیں بھلایا تھا۔ جب ایسا محسوس ہوتا کہ اب تو پکا کیس ہے تو وہی کہیں نہ کہیں سے مدد آ جاتی اور میں مکھن میں سے بال کی طرح سے نکل جاتا۔ سیکنڈ ائیر کر لینے کے بعد میں نے اب پرائیوٹ کالج جانے کا فیصلہ کیا کیونکہ میں جانتا تھا کہ اگر میں پنجاب یونیورسٹی چلا گیا تو میں لازماً جمعیت کے ہاتھ لگ جاؤں گا۔ میں اُس وقت جمعیت میں نہیں جانا چاہتا تھا۔ اب کون صبح اُٹھ کر نماز پڑھے، درس میں جا بیٹھے، رات کو جلدی سوئے کہ صبح کو فجر کے وقت اٹھنا ہے، پھر اسٹڈی سرکل، درس قرآن، درس حدیث وغیرہ وغیرہ، مجھے یہاں پر مجھے آزادی تھی‘ میرا اپنا ایک گروہ تھا‘ اپنی مرضی تھی‘ اپنی من مانی تھی‘ اپنا زور تھا‘ میں اُس وقت سمجھتا تھا کہ یہ جماعتیے تو ناظموں کی کٹھ پتلی ہوتے ہیں اور میں کسی کے باپ کا ملازم کیوں بنوں؟ خرچ پانی کی کوئی خاص ٹینشن نہیں تھی، ضرورت کے پیسے کہیں نہ کہیں سے آ ہی جاتے تھے۔ اُس وقت میں میرے کئی یار تھے‘ ہم نے مل کر لاہور کے شمالی علاقے میں اپنا ڈیرہ بنا لیا ہوا تھا جہاں روز شام کو محفل سجائی جاتی تھی ‘ مقامی حد تک تو سب کچھ جیب میں تھا اور ایک عجیب سا نیٹ ورک تھا جس کا میں کلیدی حصہ تھا۔
میں آج بھی سمجھتا ہوں کہ شاید میری والدہ کو میری حرکتوں کا اندازہ ہوگا، انہوں نے ہی اللہ کے دربار میں ہاتھ اٹھائے ہونگے کہ پھر اُس کے بعد جو ہوا وہ ناقابل یقین تھا لیکن اُس کے آخر میں میں دلد ل سے بالکل مکھن میں سے بال کی طرح نکل آیا تھا۔ میں اگرچہ بھٹکا ہوا تھا لیکن میرا چھوٹا بھائی عبداللہ اور اُس سے چھوٹا بھائی عبد المنعم دونوں ہی جمعیت کا حصہ تھے۔
ایک روز رات گئے جب میں گھر آیا تو میرے چھوٹے بھائی کے اُس وقت کے دوست عمیر اعوان آئے ہوئے تھے۔ وہ تب لاہور جمعیت کے معتمد تھے اور عبد الباسط اُس وقت ناظم لاہور تھے ۔ انہوں نے بڑے ہی پیار سے مجھ سے پوچھا کہ میں کیا کر رہا ہوں، میں نے جواب میں ظاہر ہے جھوٹ ہی کہنا تھا، سو جو منہ میں آیا کہ دیا۔ یہ ناظمین بہت کاری گر ہوتے ہیں، انہوں نے گھیرنے کا اپنا طریقہ واردات البتہ جاری رکھا۔
اُن ہی دنوں میں خدا کی کرنی ایسی ہوئی کہ لاہور کے اُس علاقے کی مقامی انتظامیہ اچانک تبدیل ہو گئی‘ ہمیں ایسی کوئی اطلاع نہیں تھی ، جس دن انتظامیہ بدلی تو اُس سے اگلے ہی دن ہمارے ڈیرے پر چھاپہ پڑ گیا۔میں وہاں تھا نہیں اور جو تھے وہ دھڑ لئے گئے۔ اب ایک جانب میرے بی کام کے پرچے ہو رہے تھے اور ادھر ایک نئی ٹینشن سر پر آ چکی تھی ۔ نہ شہر سے جا سکتا تھا اور نہ گھر میں بتا سکتا تھا، اُس وقت مجھے اللہ کا شاید اتنا ڈر نہیں تھا جتنا ابو کا تھا۔ اباجان کے بازؤں میں ماشااللہ سے اتنی طاقت تھی کہ ربڑ کا جوتا اگر تشریف پر پڑ جائے تو بندر جیسی لال تو لازمی ہو جائے گی۔اب میری جان پر بن چکی تھی ، مجھے صاف نظر آ رہا تھا کہ میں ایک دلدل میں بڑی طرح سے پھنس چکا ہوں، میں چاہ کر بھی اس سے نکل نہیں سکوں گااور انجام سامنے نظر آ رہا تھا۔ ناجانے میرے ذہن میں کیا آیا کہ میں نے عہد کیا کہ اگر میں اس دلدل سے نکل گیا تو یہ سب کچھ چھوڑ دوں گا۔
قصہ مختصر کہ اللہ کے کرم سے چند ہی دن میں کچھ سیاسی سپورٹ کی وجہ سے تمام معاملات سیٹ ہوگئے ۔اللہ نے عہد بھی پورا کروایا اور اُس سے اگلے چند دنوں میں بُڑے دنوں کے تمام ساتھی بھی خود ہی ساتھ چھوڑ گئے۔ اب میں نے بی کام میں ناکامی کے بعد بی اے کی تیاریاں شروع کر دی ۔ اس تمام عرصے میں عمیر بھائی کا طریقہ واردات جاری تھا اور وہ مجھے کھینچ کر واپس جمعیت میں لے آئے تھے ۔ میں نے میڈیا سیل لاہور جمعیت میں اپنی ذمہ داریاں ادا کرنا شروع کر دی تھیں، اس کے بعد الحمداللہ رُکنیت اختیار کی اور بعد ازاں میں نے بطور رکن لاہور و پنجاب میں ذمہ داریاں ادا کی ہیں۔ اجتماع عام 2011ء میں فوٹوز اکٹھی کرنا میری سب سے بڑی ذمہ داری تھی اور شاید آج بھی ریکارڈ میں 20جی بی کا فوٹو ڈیٹا موجود ہوگا۔آج بھی جمعیت کے مختلف ڈیزائنز پر خاکسار کی اتاری ہوئی تصاویر ہوتی ہیں جنہیں دیکھ کر دل خوش ہوتا ہے۔
اسلامی جمعیت طلبہ کا مجھ پر بہت بڑا احسان ہے۔ میں اگر ٹھوکر نہ کھاتا‘زندگی کا دوسرا رُخ اگر نہ دیکھتا تو شاید میں یہ سطور ہی نہ لکھ رہا ہوتا۔ مجھے قلم اسلامی جمعیت طلبہ نے تھمایا تھا۔ عبد الباسط بھائی میری غلطیاں سدھارتے جاتے تھے اور مجھے معلوم ہی نہیں تھا کہ کب لکھنا آ گیا، میں لاشعوری نہیں بلکہ شعوری طور پر جمعیت میں واپس آ یا تھا۔ اُس جمعیت نے مجھے بے شمار دوست دیے، اُن سے آج بھی تعلق قائم ہے۔ یہ دوست وہ ہیں جو بے غرض اور بے لوث ہیں۔ میں آج جب ماضی کو دیکھتا ہوں تو سوچتا ہوں کہ اگر میں جمعیت میں نہ ہوتا تو میں پھر کیا ہوتا؟ میرا انجام کیا ہوتا؟ میں نے چونکہ دوسری سائڈ کو گہرائی سے دیکھا ہے تو میں بہت کچھ جانتا بھی ہوں جو کہ میں یہاں لکھ نہیں سکتا۔
آج مجھ میں جو بھی مثبت پہلو ہیں وہ اللہ کے فضل اور ماں کی دعاؤں کے بعد جمعیت کا احسان ہیں اور مجھ میں کمی کو تاہیاں اور برائیاں میری اپنی کم علمی ‘ بے وقوفی کی وجہ سے ہیں۔ جمعیت میں گزارے ہوئے ماہ و ایام آج بھی یاد آتے ہیں۔ نہایت ہی شاندار دن تھے۔اللہ اُن دنوں کی کوششیں قبول کر لیں اور جانے انجانے میں کی جانے والی غلطیوں کو معاف کر یں۔اس یوم تاسیس پر اسلامی جمعیت طلبہ‘ فیصل مجاہد‘ عمیر ادریس اور عبد الباسط بھائی کیلئے دل کی گہرائیوں سے دعائیں ہیں ۔ اللہ اسلامی جمعیت طلبہ کی اجتماعیت کو ایسے ہی برقرار رکھے اور بر کت نصیب کرے۔ آمین