پی ٹی آئی کے سربراہ اور ملک کے وزیرِ اعظم عمران خان کا کے پی کے کے بلدیاتی انتخابات میں اپنی ہار قبول کرنا اور پارٹی کے ذمے داروں کی غلطیوں اور کوتاہیوں پر برہم ہوکر ان کے خلاف کارروائی کرنے کا اعلان یقیناً ایک ایسا قدم ہے جس کو اگر سراہا نہیں جائے تو زیادتی ہوگی۔
کے پی کے میں ایک بڑی شکست کا منہ دیکھنے کے بعد انھوں نے کہا ہے کہ “خیبرپختونخوا میں نالائقیوں کے سبب ہار، سفارش یا رشوت ستانی آئندہ برداشت نہیں ہوگی۔ وزیراعظم سے وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا محمود خان نے ملاقات کی جس میں وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی، علی امین گنڈاپور سمیت دیگر اہم عہدیداران بھی شریک تھے۔اس موقع پر وزیراعلیٰ نے حالیہ بلدیاتی انتخابات میں ناکامی سے متعلق رپورٹ پیش کی، جس میں شکست کا ذمے دارگورنر کے پی کے، اسپیکرقومی اسمبلی اسد قیصر سمیت 4 صوبائی وزرا اور 11 اراکین اسمبلی قرار دیئے گئے جس پر پارٹی فیصلے کے مخالف جانے والے ارکان کو ابتدائی طور پر شوکاز نوٹس جاری کرنے کا فیصلہ کیا گیاہے۔ وزیراعظم نے بلدیاتی انتخابات میں شکست کے ذمے داروں کے خلاف کارروائی کی ہدایت کرتے ہوئے مزید مشاورت کے لیے کور کمیٹی کا اجلاس بلانے کا بھی فیصلہ کیا ہے”۔
وزیرِ اعظم کے ارادے اور پارٹی کے اچھے مستقبل کیلئے اقدامات کے فیصلے اپنی جگہ بہت ہی مستحسن سہی لیکن جب چڑیاں کھیت چگ چکی ہوں تو یہ بات سانپ کے گزر جانے کے بعد لکیر پیٹنے والی جیسی ہی ہو کر رہ جاتی ہے یا پھر منیر نیازی کی نظم کا یہ مصرع بن جاتی ہے کہ “ہمیشہ دیر کر دیتا ہوں میں”۔ شاید ان کو یہ بات بھی پتہ نہیں ہو کہ آئین نے ان کو جو 60 ماہ اقتدار کی کرسی پر براجمان ہونے کیلئے دیئے تھے ان میں سے وہ 42 ماہ گزار چکے ہیں اور اب بصد مشکل ان کے پاس 18 ماہ کا عرصہ رہ گیا ہے، کیونکہ ان کو اکثر خبریں ٹی وی سے پتہ چلتی ہیں یا پھر بی وی سے لیکن لگتا ہے اب انھوں نے یا تو دونوں جانب سے اپنے کان بند کر لئے ہیں یا پھر وہ دونوں کے صائب مشوروں کو اپنے خلاف ہونے والی تنقید قرار دیتے ہوئے اپنی اصلاح سے گریز کی پالیسی اپنا لی ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ مخالفانہ رائے یا مخالفوں کی جانب سے کی جانے والی باتیں دل کو چیر کر رکھ دیا کرتی ہیں لیکن اس پر دل شکستہ ہونے کی بجائے اگر ٹھنڈے دل کے ساتھ غور و فکر سے کام لیا جائے تو، رائی برابر ہی سہی، حکومتی امور کی کوئی نہ کوئی کمی یا کوتاہی کی جانب اشارے ہوا کرتی ہیں۔ بقول مولانا ابوالاعلیٰ مودودی کہ افراد کی تند و تیز اور تلخ باتوں میں ہمارے لئے بڑی رہنمائی ہوتی ہے کیونکہ مخالفانہ باتیں ہماری کسی نہ کسی معمولی کوتاہیوں کو بتا رہی ہوتی ہیں جو ہم سہواً کر رہے ہوتے ہیں۔
اپوزیشن کا کام بے شک مخالفت ہی کرنا ہوتا ہے لیکن غور کیا جائے تو ان کی اس تلخی میں حکومت کا ایسا پہلو ضرور شامل ہوتا ہے جو اصلاح طلب ہو اور اگر نشاندہی کی جانے والے کمزور پہلوؤں کر مزید بہتر کر لیا جائے تو طرز حکومت کو مزید بہتر کیا جا سکتا ہے لیکن ہوتا یہ ہے کہ انائیں راہوں کی رکاوٹ بن جاتی ہیں اور اپوزیشن کی باتیں مان لینا اپنے آپ کو کمزور کر لینا اور اپوزیشن کو مضبوط تر بنا لینے کے برابر سمجھ لیا جاتا ہے۔
پارلیمانی جمہوریت کا حسن تو یہ ہونا چاہیے کہ وہ اپوزیشن کی تعمیری سوچوں کے وزن کو محسوس کرے اور خاص طور سے اسمبلی کے فلور پر کسی بھی بِل کے خلاف دی جانے والی آرا کو غیر اہم قرار نہ دے لیکن صدیوں سے سمائے آمرانہ ذہنوں پر ہر مخالف رائے دل و دماغ پر ہتھوڑوں کی طرح برسا کرتی ہے اور سادہ ہی سہی، اکثریت سے ہر بل منظور کرالینے کی رسم ٹوٹ کر نہیں دیتی۔
آج جن جن خامیوں اور کوتاہیوں کا اعتراف ملک کے وزیرِ اعظم، ان کے وزرا، مشیران اور ذمہ داران اپنے منہ سے کر رہے ہیں اور اپنی ہی پارٹی کے اہم ذمے داروں کے خلاف کارروائیاں کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں، یہ سب باتیں وہ ہیں جن کو نہ صرف اپوزیشن والے کرتے رہے ہیں بلکہ خود ان کی پارٹی کے بیشمار مخلص افراد، ٹی وی اینکرز اور ایسے لوگ جو ان کی پارٹی کیلئے بے لوث کام کرتے رہیں، کرتے رہے ہیں لیکن بد قسمتی سے سب کی باتوں کو نہ صرف وزیر اعظم کی جانب سے بلکہ تمام وزرا و مشیران کی طرف سے در خورِ اعتناع بھی نہیں سمجھا گیا۔
اگر وزیرِ اعظم کے بیان کردہ ارادے کو سامنے رکھا جائے تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ “آئندہ ایسی کوئی نالائقی اور کوتاہی کو برداشت نہیں کیا جائے گا” کا کیا مفہوم لیا جائے۔ گویا اب تک کی ساری رشوت ستانیاں، سفارشات، آپس کی کٹا چھنی، پارٹی کے اندر پارٹی اور ہر قسم کی کرپشن ریگولرائز ہو گئی؟۔
بات سیدھی سی یہ ہے کہ اختلاف رائے الگ بات ہے لیکن ان پر پارٹی کے اندر پارٹی بنانا، رشوت لینا، بے جا سفارش کرنا اور دیئے گئے قانونی اختیارات سے تجاوز کرنا بہر صورت جرائم ہیں اور جرائم کی سزا پاکستان کے قانون میں صاف صاف درج ہے۔ جب ایسا ہے اور وزیر اعظم کے علم میں ہر پارٹی کے ذمے داروں کی ہر غیر اخلاقی و قانونی حرکات ہیں تو پھر ان کے خلاف قرار واقعی کارروائی کس بنیاد پر تاخیر کا شکار ہے۔
وزیرِاعظم سے یہی کہنا ہے کہ بہتری اسی میں ہے کہ قانونی کارروائی کا صرف اعلان نہیں کیا جائے بلکہ کی جائے بصورت دیگر یہ بات عوام کی نظر میں لولی پاپ سے زیادہ اہمیت کی حامل ثابت نہیں ہوگی اور آنے والے ہر قسم کے الیکشن میں ان کی پارٹی کیلئے ایک بھیانک عفریت کی شکل اختیار کرتی جائے گی۔