خود غرضی ، نفرت ، انتشار ، خلفشار کے شکار معاشرے کو آج پہلی ضرورت انسانی یکجہتی کی ہے۔فلاح انسانی کے لیے انتہائی ضروری ہے کہ ہم اپنی چھوٹی بڑی خوشیو ں میں دوسرے انسانوں کو شریک کریں اور دوسروں کے غموں میں باہم شریک ہوں، اوردوسروں کے لیے خوشیاں کشید کرنے اور دکھی انسانوں کے سماجی و معاشرتی مسائل کے حل میں اپنا مثبت کردار ادا کریں۔
ایک دوسرے کے ساتھ خیر خواہی کا معاملہ اپنائیں، اور جو مسائل ہمیں درپیش ہوں ان کو باہم اتفاق و یکجہتی سے حل کریں ۔بلاشبہ اتفاق اتحاد اور یکجہتی انسانوں کی سب سے بڑی طاقت ہے اس کا مشاہدہ ہم زندگی کے ہر مرحلے میں کرتے ہیں۔ انسانوں کے زندگی گزارنے کا سماجی نظام اسی وحدت اور یکجہتی کو حاصل کرنے کا ایک ذریعہ ہے۔ اسی سے تہذیبیں وجود پاتی ہیں اور نئے سماجی نظام نمو پاتے ہیں۔ مگر بد قسمتی سے ہمارے معاشروں میں انسانی یکجہتی کا شدید فقدان پایا جاتا ہے ، دوسروں کے مسائل سے قطع تعلق لوگوں میں خود غرضی اور بے حسی روز بروز بڑھتی جارہی ہے۔
ہرسال 20 دسمبر کو انسانی یکجہتی کا عالمی دن منانے کا مقصد دنیا سے غربت اور تنگ دستی کے خاتمے ، اورانسانوں کی باہمی یکجہتی کی اہمیت کو اُجاگر کرنا ہے۔ انسانی حقوق کی علمبردار سماجی تنظیمیں اس دن کے حوالے سے خصوصی سیمینارز، واک اور تقا ریب کا اہتمام کرتی ہیں۔ دنیا کی تمام اقوام و مذاہب میں سب سے پہلے یکجہتی کا درس دین اسلام نے دیا ہے کہ تمام مسلمان آپس میں بھائی بھائی ہیں، خواہ کوئی مشرق ومغرب کا رہنے والا ہو یا شمال وجنوب کا، کوئی مسلمانوں کے علاقے میں رہتا ہو یا کافروں کے علاقے میں، سب مسلمان بھائی ہیں اور بھائیوں کے ساتھ اظہاریکجہتی کرنا ایک شریف اور باکردار قوم کی پہچان ہوتی ہے۔اسلام نے بلا تفریق مذہب وملت انسانی برادری کا وہ نقشہ کھینچا ہے جس پر سچائی سے عمل کیا جائے تو شر ور وفساد ،ظلم و جبر اور بے پناہ انارکی سے بھری دنیاجنت کا منظر پیش کرنے لگے ۔
محض انسانیت کی بنیاد پر تعلق و محبت کی جو مثال اسلام نے قائم کی ہے د نیا کی کسی تعلیم،کسی مذہب اور کسی مفکر کی وہاں تک رسائی نہیں۔ نبی آخر الزماں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے ’’ایک دوسرے سے بغض نہ رکھو، حسد نہ کرو،ایک دوسرے سے منہ نہ پھیرو،سب مل کر خدا کے بندے اور آپس میں بھائی بھائی بن جاؤ،اور صحیح بخاری کی ایک روایت میں ہے کہ ایک دوسرے کو دھوکہ نہ دو۔ ایک دوسری جگہ ارشاد ہے’’ جورحم نہیں کرتا اس پر رحم نہیں کیا جاتا۔ تم زمین والوں پہ رحم کرو تم پر آسمان والا رحم کریگا،(حاکم مستدرک )۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ مسلمانوں کو پست اور منقسم کرنے میں چند عالمی طاقتوں کی سامراجی ذہنیت ، چالبازیاں، اور پوری دنیا پر حکمرانی کا خواب ہے، سامراج اور اس کے پالیسی ساز ادارے عالم اسلام کو کسی صورت متحد نہیں دیکھنا چاہتے۔ وہ ایک ایجنڈے کے تحت عالم اسلام کو تقسیم در تقسیم کرتے چلے آرہے ہیں۔ اسی باعث مسلمانوں میں اختلافات ہیں ، اور عالم اسلام کے ممالک اور ان کے حکمرانوں میں اتحاد نہ ہونے کے برابر ہے۔ کسی بھی ملک کی سیاسی جماعتیں ایک دوسرے کی حریف ہیں ۔حزب اقتدار اور اختلاف میں ذاتی دشمنیاں اور عناد ہیں۔ دینی اور مذہبی جماعتوں ، اداروں اور رہنماؤں میں اتنا اختلاف ہے کہ بغیر کسی دلیل کے ایک دوسرے کو منافق ، ملحد اور ایجنٹ ہونے کے القاب دیتے ہیں۔
صوبائیت ، لسانیت، قومیت اور وطنیت کے جھگڑے ہیں۔ سازشی عناصر ان حالات اور کمزوریوں سے فائدہ اٹھارہے ہیں۔ اسلامی تعلیمات میں سب سے زیادہ زور اتفاق و یکجہتی پر دیا گیا ہے۔ آپس میں محبت ،اخوت، بھائی چارہ، ایمان واتحاداور یقین مسلمانوں کا موٹو ہوتا ہے۔آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے حجتہ الوداع میں حکم فرمایا ’’ دیکھو ! باہمی اختلاف میں نہ پڑنا۔‘‘ قرآن کریم میں اللہ ربّ العزت کا حکم ہے ’’ ولاتفرقوا‘‘ ’’اختلاف ہرگز ہرگز نہ کرو۔‘‘ تاریخ اٹھا کر دیکھیں اختلاف ہی کی وجہ سے قوموں اور ملکوں کو بڑے بڑے نقصان اٹھانا پڑے ہیں۔ اختلاف ہی کی وجہ سے مسلمان ممالک پستی اور ذلت کا شکار ہیں۔ غربت، مہنگائی، بدامنی، لاقانونیت ، بے روز گاری، جہالت، انتقام، لوٹ مار، ڈاکے، اغوا، قتل و غارت جیسے موذی امراض مسلمانوں میں باہمی اختلافات ہی کا نتیجہ ہیں۔ آج جہاں اُمت مُسلمہ میں مثالی اتفاق و اتحاد و یکجہتی کی ضرورت ہے وہاں ہمارے معاشرے اور حلقہ احباب میں انسانی یکجہتی کی بھی شدید ضرورت ہے ، دوسروں کے ساتھ خیر خواہی کرنے والے جذبے کو بیدار کرنے کی شدید ضرورت ہے۔ دوسروں کے دُکھوں کو بانٹنے ، نفرتوں اور بے حسی کی روش ترک کرتے ہوئے ایک دوسرے کے معاون اور مددگار بننے کی ضرورت ہے۔ بقول شاعر
سات صندوقوں میں بھر کر دفن کر دو نفرتیں
آج انساں کو محبت کی ضرورت ہے بہت