سال دو ہزار اکیس اپنے اختتام کی جانب تیزی سے بڑھ رہا ہے۔رواں برس چین میں جہاں انسداد وبا کے حوالے سے متاثر کن اقدامات کا تسلسل جاری رہا وہاں ہمہ گیر اقتصادی سماجی ترقی کے اعتبار سے بھی نمایاں اقدامات کی بدولت ٹھوس نتائج برآمد ہوئے ہیں۔چین کی ترقی کا سب سے اہم پہلو جو اسے دیگر دنیا سے ممتاز کرتا ہے وہ عوام کی مرکزیت پر مبنی فیصلہ سازی ہے۔اس سے مراد یوں لی جا سکتی ہے کہ عوام سب سے مقدم ہیں،عوام ہی طاقت کا سرچشمہ ہیں،عوام ہی ملک کے حقیقی حکمران ہیں۔اس نظریے سے جڑے رہتے ہوئے عوامی فلاح و بہبود کو یقینی بنایا جاتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ آج چین کے عوام خود کو دیگر ترقی پزیر ممالک حتیٰ کہ کئی ترقی یافتہ ممالک کی نسبت مزید آسودہ،محفوظ اور خوشحال تصور کرتے ہیں۔
چین کی ترقی کا ایک دوسرا نمایاں پہلو مستقل مزاجی اور پائیداری ہے۔ یہ عام مشاہدہ ہے کہ دنیا کے کئی ممالک میں قیادت کے بدلتے ہی پالیسیاں بھی بدل دی جاتی ہیں یا پھر پہلے سے جاری پالیسیوں پر عمل درآمد رک جاتا ہے، مگر چین میں ایسا نہیں ہے۔یہاں برسراقتدار جماعت کمیونسٹ پارٹی آف چائنا پہلے سے وضع شدہ پالیسیوں کو مزید آگے بڑھاتے ہوئے ان میں ضروری اصلاحات لاتی ہے اور اپنی عوام دوستی کو عملی اقدامات سے ثابت کرتی ہے۔یہی وجہ ہے کہ چین کی ترقی میں پائیداری ایک نمایاں عنصر ہے۔ابھی حال ہی میں چین کی پائیدار ترقی کے حوالے سے ایک بلیو پیپر بھی جاری کیا گیا ہے جس میں اعداد و شمار مؤثر گورننس کی گواہی دیتے ہیں۔رپورٹ سے ظاہر ہوتا ہے کہ چین کی پائیدار ترقی کی مجموعی صورتحال میں مسلسل بہتری آئی ہے۔ 2015 سے 2019 تک، چین کی اقتصادی طاقت میں نمایاں اضافہ ہوا ہے، سماجی صورتحال اور لوگوں کی زندگی، وسائل اور ماحولیاتی حالات میں عمومی بہتری آئی، توانائی کے استعمال اور گرین ہاؤ س گیسز کے اخراج پر کنٹرول میں بڑی پیش رفت ہوئی ہے۔
رپورٹ میں یہ خیال ظاہر کیا گیا کہ چین، ترقی کے ایک نئے مرحلے میں داخل ہو چکا ہے اور پائیدار ترقی کی اپ گریڈیشن بھی نازک موڑ پر ہے۔لہذا ضروری ہے کہ ترقی کے نئے تصور کو عملی جامہ پہنایا جائے، ترقی کا ایک نیا نمونہ قائم کیا جائے، اور پائیدار ترقی کے لیے اقوام متحدہ کے 2030 کے ایجنڈے کو آگے بڑھایا جائے، معیشت، معاشرے اور ماحولیات کے درمیان متحرک طور پر توازن برقرار رکھا جائے، تاکہ مزید جامع، لچکدار، اور بھرپور پائیدار ترقی حاصل کی جا سکے۔رپورٹ میں پانچ پہلوؤں کے اعتبار سے چین کی پائیدار ترقی کو فروغ دینے کی تجویز پیش کی گئی ہے۔ان میں، چین چونکہ مطلق غربت کو مکمل شکست دے چکا ہے لہذا اب غربت کے خاتمے کی کامیابیوں کو مستحکم کرنا لازم ہے،اسی طرح صنعتی ٹرانسفارمیشن میں سائنسی اور تکنیکی جدت طرازی کا رہنما کردار، ماحولیاتی تہذیب کی تعمیر کا فروغ، صحت عامہ کے معیار میں بہتر ی اور عالمی گورننس میں چین کو مزید بلند مرتبے پر فائز کرنا،شامل ہیں۔
چین پائیدار ترقی کے تحت مشترکہ خوشحالی کے تصور سے جڑے رہتے ہوئے اپنی عوام کی زندگیوں میں زیادہ سے زیادہ بہتری لانے کے لیے پرعزم ہے۔غربت کے خلاف جنگ جیتنے اور ایک جامع معتدل خوشحال معاشرے کی تعمیر کا پہلا صد سالہ ہدف مکمل کرنے کے بعد، اس وقت چین میں مشترکہ خوشحالی کو فروغ دینے کے لیے حالات سازگار ہیں۔چین کی اقتصادی ترقی کی سطح اس مقام پر پہنچ گئی ہے جہاں اس کے تمام شہری مناسب معیار زندگی سے لطف اندوز ہونے کے قابل ہو چکے ہیں۔یہ بات قابل زکر ہے کہ پائیدار ترقی اور مشترکہ خوشحالی کی جانب مزید ٹھوس پیش رفت کو چین کے 2035 تک کے کلیدی طویل مدتی اہداف میں سے ایک کے طور پر درج کیا گیا ہے۔
چین کی دور اندیش قیادت اس حقیقت سے بخوبی آگاہ ہے کہ کچھ ترقی یافتہ ممالک میں امیر اور غریب کے درمیان بڑھتا ہوا فرق سماجی بدامنی کی ایک وجہ ہے۔یہی وجہ ہے کہ چین اس سے بچنے کی کوشش کر رہا ہے۔اس مقصد کی خاطر چین کی جانب سے اپنائے جانے والے اقدامات میں مشترکہ خوشحالی کے اہم گیٹ ویز میں ٹیکس جیسے چینلز کے ذریعے حد سے زیادہ آمدنی کو ایڈجسٹ کرنا، مضبوط عوامی فوائد کی فراہمی کے ذریعے کم آمدنی والے گروہوں کے لیے مزید امداد اور متوسط آمدنی والے گروپ کی توسیع شامل ہیں۔چین نے اجارہ داریوں کے خلاف کریک ڈاؤن کی کوششیں تیز کر دی ہیں، سرمائے کے بے ترتیب پھیلاؤ کو روکا ہے، اور تفریحی اور تعلیم کے شعبوں کی نگرانی کو تیز کر دیا ہے۔اس طرح کے تمام اقدامات کا مقصد صنعتوں کی صحت مند اور مزید پائیدار ترقی کو فروغ دینا ہے۔
دریں اثنا، چین نے معاشی اپ گریڈنگ اور مقامی سطح پر کیے جانے والے کاروبار میں مزید سرمایہ کاری کے ذریعے امیر اور غریب علاقوں کے ساتھ ساتھ شہری اور دیہی علاقوں کے درمیان ترقیاتی فرق کو کم کرنے کے لیے اقدامات کیے ہیں۔ملک میں بڑے کاروباری اداروں اور کاروباری رہنماؤں نے عطیات اور سماجی امدادی منصوبوں میں پہل کی ہے۔انہی کوششوں کے ثمرات ہیں کہ چین میں متوسط آمدنی والا طبقہ 2010 میں 100 ملین سے بڑھ کر 2019 میں 400 ملین سے زائد ہو چکا ہے، جو کل آبادی کا تقریباً 30 فیصد ہے۔یوں چین کے پائیدار اور مشترکہ ترقی کے تصور کے تحت متوسط آمدنی والے طبقے کی تعداد میں مزید اضافہ متوقع ہے، جس سے اعلیٰ معیار کی مصنوعات اور خدمات کی بے پناہ مانگ میں اضافہ ہو گا اور دنیا بھر کی کمپنیوں کے لیے کاروبار کے زبردست مواقع بھی سامنے آئیں گے۔