*شعوری نیت اور دعا:*
رسمی مبارک سلامت کے شور سے نکل کر شعوری نیت و عمل کیساتھ نئے سال کو خوش آمدید کہیں اور اللہ کا شکر ادا کریں کہ اس نے بخیر و عافیت مزید مہلت عمل دے دی۔ مگر یاد رہے کہ نیت و عمل کے باوجود اللہ کی مدد اور توفیق کے بغیر کچھ ممکن نہیں کیونکہ۔۔۔۔۔۔۔۔( اللہ کی مدد اور نصرت کے بغیر کسی کام کے کرنے کی طاقت اور ہمت ممکن نہیں )
لہذا توفیق الہی کے لیے دستیاب سوال دراز کریں بلکہ اگر ہو سکے تو نماز حاجت پڑھ کر اس دعا کیساتھ نئے سال میں داخل ہوں، جو آپﷺ ہر ماہ کا نیا چاند دیکھ کر فرمایا کرتے تھے کہ:۔۔۔۔۔(اے اللہ ! اس چاند کو امن، ایمان، سلامتی اور اسلام کے ساتھ ہم پر طلوع فرما، (اے چاند) میرااورتیرا رب اللہ ہے۔(الترمذی)
گویا ہر طلوع ہونے والے چاند کیساتھ یہ تمنا اور دعا مسنون ہے کہ وہ چاند اہل زمین کیلئے امن و سلامتی اور دین اسلام کی سر بلندی لیکر آئےاور پھر اس بات کا اعتراف بھی ہو کہ چاند اور ہم سب اللہ کی مخلوق ہیں اور اللہ ہی کے حکم کے پابند اور فرماں بردار ہیں۔ اور پھر یہ تجدید عہد بھی ہو کہ اس دعا کی عملی تعبیر و تفسیر میں انشاءاللہ اللہ ہم بھی خیر و سلامتی کے پیغام بر اور دین اسلام کے علمبردار بنیں گے۔ اللہ کرے آنے والا سال انفرادی اور اجتماعی لحاظ سے حقیقی معنوں میں ہمارے حق میں ہمارے پچھلے تمام سالوں سے زیادہ بہتر اور نجات دہندہ ثابت ہو۔ کیونکہ حدیث کی رو سے:
*”(بےشک) ہلاک ہو گیا وہ شخص جسکا آج اسکے گزشتہ کل سے بہتر نہیں”*(ترمذی)۔
*صدقہ:*
آنے والے سال میں خیر و بھلائی میں برکت کے لیے اور ہر بلا و شر سے بچنے کے لئے صدقے سے بھی مدد حاصل کریں۔
*خود احتسابی:*
بحیثیت مسلمان ہم سب کا نصب العین ، مقصد زندگی اور معیار کامیابی اس کے سوا کچھ ہو ہی نہیں سکتا جو قرآن نے ہمارے لئے طے کر دیا ہے کہ “کامیاب دراصل وہ ہے جو دوزخ کی آگ سے بچ جائے اور جنت میں داخل کر دیا جائے” (آل عمران) چنانچہ اس معیار کی روشنی میں، بہت اچھا ہو اگر ہم ، نئے سال کے آغاز پر، اپنے گزشتہ سالوں کو ذہن کی اسکرین پر رکھ کر خود احتسابی کے عمل سے گزریں۔ حالانکہ حق تو یہ ہے بقول جنید بغدادی رحمۃ اللہ علیہ کہ “تم ہر لمحہ یہ دیکھتے رہو کہ اللہ سے کتنے قریب ہوئے، شیطان سے کتنے دور ، جنت سے کتنے قریب ہوئے اور دوزخ سے کتنی دور” گویا یہ احتساب ہر گھڑی، ہر لمحہ ہونا چاہیے۔۔۔۔ ورنہ ہر صبح کے آغاز میں ہو۔ کیونکہ مومن کے لئے تو ہر صبح، نئی زندگی، نئی دنیا، نئے جہان کا آغاز ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : “ایسی کوئی صبح ہوتی ہی نہیں ، جس میں دو فرشتے نہ پکاریں کہ اے آدم کے بیٹے ؛ میں ایک نیا دن ہوں اور تمہارے اعمال پر گواہ ہوں پس مجھ سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھاؤ کیونکہ اب میں روز قیامت سے پہلے نہیں پلٹوں گا” (ترمذی)۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ پھر یہ بھی حقیقت ہے کہ موت ماہ و سال کے ساتھ مشروط نہیں بلکہ کوئی بھی لمحہ موت کا لمحہ ہو سکتا ہے اس لیے مومنانہ خصلت تو یہی ہے کہ وہ ہمہ وقت احتساب پر کمربستہ اور موت کے لیے تیار رہے۔ ویسے بھی اصل اعتبار شعور ذات ، اخلاص نیت ،عزم و استقلال اور ایمانی کیفیت کا ہے نہ کہ روز و شب کی گنتی کا۔۔۔۔ بہرحال “دیر آید ، درست آید” کے مصداق، اگر ایمان و احتساب کا یہ عمل سال بھر کے بعد بھی ہو تو غنیمت ہے ۔کیا معلوم یہ احتساب اتنا کڑا اور جاندار ہو کہ آنے والے سارے ماہ و سال کے لیے کافی ہو جائے۔۔
بہرحال خود احتسابی کے ضمن میں، ابتدائی طور پر ، چند بنیادی سوالات سے گزرنا بہت ضروری ہے مثلا یہ کہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔کیا مجھے اپنے مقصد زندگی کا شعور ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔؟ کیا میں نے گزشتہ سال کو اپنے مقصد زندگی کے ساتھ گزارا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔؟ کیا مجھے ایسی ہی ہونا چاہیے جیسی کہ میں میں ہوں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟ کیا میں اپنی زندگی کے معمولات سے مطمئن اور خوش ہوں ۔۔۔۔۔۔؟ کیا مجھے سچی خوشی کی حقیقت کا علم اور احساس ہے ۔۔۔۔۔۔؟ بےشک ان سوالات کے جوابات ہی میں خود احتسابی کا پورا عمل موجود ہے بشرطیکہ یہ جوابات اسلام کے معیار مطلوب کی روشنی میں اور پورے غور و فکر کے ساتھ ہوں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اسی طرح اگر “دنیا آخرت کی کھیتی ہے” اور بے شک ہے کیونکہ حدیث اس کی تصدیق کرتی ہے ، تو اس اصول کی روشنی میں اپنی زندگی کا پورا پیپر اپنی نظروں کے سامنے رکھ کر دیکھیں کہ میں، میری زندگی ، میرے روز و شب ، میرا وقت، میری سوچیں ، میری فکریں، میرے خواب، میری قوتیں، صلاحیتیں، اختیارات، ذرائع و وسائل ان میں سے کیا کیا ، کس کس حد تک آخرت کے نقطہ نظر سے استعمال میں آ رہے ہیں۔۔۔۔۔۔؟ اور آخرت کی میزان میں اجر و ثواب اور کامیابی و کامرانی کی ضمانت ہیں۔۔۔۔۔؟ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جیسا کہ حکم الہی بھی ہے۔”اے لوگو جو ایمان لائے ہو، اللہ سے ڈرو اور ہر شخص یہ دیکھے کہ اس نے کل کے لئے کیا سامان کیا ہے ؟؟؟(الحشر:18) پھر اس تناظر میں یہ دیکھنے کی بھی ضرورت ہے کہ میری ذات میں، میرے اپنے اندر ، میرے بچوں میں ، میرے ماحول میں کیا کیا کمیاں وکوتاہیاں موجود ہیں ۔۔۔۔۔۔؟ کیا کیا بری عادات اور خصلتیں ہیں۔۔۔۔۔؟ نت نئی بھی اور وہ پرانی بھی جن سے جان چھڑانے کی اور ان کی جگہ دوسری بہت سی اچھی عادات اپنانے کی خواہش اور حسرت تو عرصہ دراز سے یا ہمیشہ سے میرے اندر موجود رہی ہے مگر اس کے لیے کبھی کوئی سنجیدہ کوشش عمل میں نہ آسکی اور اگر تھوڑی بہت کوشش ہوئی بھی، تو وہ بارآور نہ ہو سکی۔۔۔۔۔ کیوں بارآور نہ ہو سکی ۔۔۔۔۔ ؟ وجوہات کیا رہیں۔۔۔۔؟ نفس کی ، مزاج کی ، ماحول کی کیا کیا رکاوٹیں درپیش رہیں۔۔۔۔۔؟ کہ باوجود خواہش اور نیت کے کچھ کر نہ پائے ۔۔۔۔۔۔؟ اس کا بھی باریک بینی کے ساتھ جائزہ لینے کی ضرورت ہے تاکہ اپنی غلطیوں، کوتاہیوں اور ناکامیوں پر قابو پایا جاسکے ۔
پھر قریب سے دور تک پھیلے میرے zone of influence میں۔۔۔۔ انفرادی زندگی سے لے کر اجتماعی زندگی تک کن کن چیزوں کی کمی رہی۔۔۔۔۔؟ کہاں کہاں غفلت اور کوتاہی رہی۔۔۔۔؟ جن کی بالواسطہ یا بلاواسطہ (directly or indirectly) میں بھی ذمہ دار ہوں۔۔۔۔۔؟ ان میں میرا رول کیا ہونا چاہیے تھا ، مگر کیا رہا۔۔۔۔۔۔؟ آج زندگی کے اس دوراہے پر، ان سب کے بارے میں بھی سنجیدگی کے ساتھ سوچیں اور حل تلاشیں اور اللہ سے خصوصی مدد اور استعانت طلب کریں۔ کیونکہ لوگ ماحول اور حالات و واقعات خواہ کیسے بھی ہوں۔۔۔ کچھ بھی ہوں ۔۔۔ آزمائش کے پرچے ہیں۔ جیسا کہ قرآن کی گواہی ہے کہ “ہم اچھے یا برے حالات میں ڈال کر تمہاری آزمائش کرتے ہیں “(الانبیاء:35) لہذا ہر قسم کے حالات میں میں اپنے ردعمل کو ( اپنے موڈ، مزاج اور روئیے کو) نوٹ کریں۔ آخرت کے پلڑے میں بے شک یہی ہماری نیکی یا بدی ہے۔ لہذا ان میں اپنے منفی رد عمل پر ۔۔۔۔ اپنی کمیوں کوتاہیوں پر دلی اور قولی استغفار کے ساتھ ساتھ عملا بھی ان کے ازالے کی کوشش کریں ۔
دوسری طرف جو بھی نیکی کی توفیق میسر آئی ہو، یا نعمت یا آسانی ملی ہو، اس پر سجدہ شکر بھی بجا لائیں۔ یاد رکھیں اصل چیز initiatives لینا ہے….. آگے اللہ کا کام ہے اس کا وعدہ ہے کہ:۔۔۔ بیشک راستہ دکھانا ہمارے ہی ذمہ ہے* اور “و یھدی الیہ من ینیب” ( الشوری) (اور وہ اپنی طرف آنے کا راستہ اسی کو دکھاتا ہے، جو اس کی طرف رجوع کرے)۔۔۔
پھر یہ جائزہ و محاسبہ صرف انفرادی سطح پر ہی نہیں بلکہ “من حیث القوم” اور “من حیث الامت مسلمہ” بھی ہونا چاہیے کہ ہم اقوام عالم میں کس مقام پر کھڑے ہیں۔۔۔۔۔؟ اخلاقی ، سیاسی، معاشی معاشرتی۔۔۔۔۔ ہر حوالے سے ۔۔۔۔۔؟ تاکہ اس سارے scenario میں ہم اجتماعی لحاظ سے اپنی خوبیوں اور خامیوں کا بے لاگ تجزیہ کر سکیں اور پھر اس روشنی میں خیر و اصلاح کے لئے اپنے اپنے ممکنہ رول کی بحسن و خوبی ادائیگی کے لیے کوئی لائحہ عمل طے کر سکیں ۔مزید برآں اجتماعی شعور و آگہی اور اجتماعی استغفار کے لیے فضا ہموار کریں ، اپنے ملک و قوم کی اور امت مسلمہ کی کامیابی و سربلندی کے لئے خصوصی دعاؤں کا اہتمام کریں۔۔۔۔۔ اور امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے فریضے کو اپنی زندگی کا مشن بنائیں۔
میں نے اپنے بعض دوست احباب کو دیکھا ہے کہ وہ ہر سال کی آخری رات ،شب بیداری کا خصوصی اہتمام کرتے ہیں، جس میں وہ گزشتہ سال میں اپنی، اپنی قوم کی اور امت مسلمہ کی طرف سے ہونے والے گناہوں، غلطیوں اور کوتاہیوں پر خشوع و خضوع کے ساتھ توبہ واستغفار بھی کرتے ہیں، ان کی تلافی کی planning بھی کرتے ہیں اور آنے والے سال میں خیر و عافیت اور کامیابی و کامرانی کے لیے دعا اور صدقہ کا بھی بھرپور اہتمام کرتے ہیں۔ بلکہ ان کا یہ بھی معمول ہے کہ وہ ہر سال کے پہلے دن کو روزے کی عبادت کے ساتھ گزارتے ہیں۔ اگرچہ یہ مسنون اعمال نہیں کیونکہ اسلام کے نقطہء نظر سے اہمیت و فضیلت کے لحاظ سے اور نیکی و عبادت اور ایمان و احتساب کے لئے خاص طور پر recommended ماہ و ایام تو عشرہ ذوالحجہ اور رمضان المبارک ہیں مگر بہرحال ایک مسلمان کے لیے تو ہر وہ لمحہ ہی قیمتی اور اہم ہے، جواسے خوداحتسابی، تزکیہ نفس اور معرفت حق سے ہمکنار کر دے۔
*اہداف کا تعین:*
نئے سال کے آغاز پر ایک اہم کام آنے والے سال کے لئے اہداف کا تعین ہے مگر اس سے پہلے گزشتہ سال کے اہداف کا جائزہ لینا ضروری ہے تاکہ ضرورت و اہمیت کے مطابق ، pending کاموں کو نئے سال کے اہداف میں سرفہرست شامل کیا جاسکے۔۔۔۔ مزید برآں وقت اور حالات کے مناسبت سے نئے اہداف کا بھی تعین ہو مگر اس کے لیے بھی پورے غور و فکر اور حکمت و تدبر کے ساتھ کام لیا جانا چاہیے اور بالآخر تمام اہداف کو ترجیحات کی ترتیب کے ساتھ تحریر کیا جانا چاہیے اور پھر ان پر عمل درآمد اور follow up کے لیے بھی، سوچ بچار کر کے، مختلف تدابیر اور عملی tips کو بھی قلم بند کر لیا جانا چاہئے تاکہ وقتا فوقتا یاددہانی اور رہنمائی ہوتی رہے۔۔۔۔۔۔اللہ کرے آنے والا سال،مسلمانوں کے لئے، امن و سلامتی اور اسلام کے احیاء و سربلندی کا سال ثابت ہو۔