انوکھی محبت!

محبت مجازی ہو یا پھر حقیقی سچ بتائیں توساری ہی انوکھی ہوتی ہیں ۔ دورِ حاضر میں تو محبت کے انوکھے ہونے کی اہم وجہ یہ بھی ہے کہ محبت نامی شے تقریباً ناپید ہوتی جا رہی ہے یا پھر تیزی سے دنیا پر مادہ پرستی کا غلبہ محبت کو بھی ہوس سے تبدیل کرنے پر بضد دیکھائی دے رہی ہے ۔

دل کے دکھی ہونے کی دودائمی ممکن وجوہات ہوسکتی ہیں ایک تو یہ کہ اپنے تخلیق کار سے سرا سر نا آشنائی اور دوسری یہ کہ اپنی دانستہ اور غیردانستہ سرزد ہونے والی خطاءوں سے نظروں کا نا ملانا یعنی انہیں مان لینا ۔ علم ایک ایسی عینک ہے جو شناسائی کی گرد کے نیچے دیکھنے کی بھرپور صلاحیت رکھتی ہے ۔ محبت کو علم کی ضرورت نہیں ہوتی البتہ علم محبت کی طرف دھکیلنے کی صلاحیت رکھتاہے ،مختصراً یہ کے اپنے تخلیق کار تک پہنچنے کے راستوں کی نشاندہی کرا دیتا ہے ، خوبصورتی کی وضاحت کرادیتا ہے اور سب سے بڑھ کر آنکھوں میں موجود راستوں سے دل کی گہرائی تک رسائی بھی دلا دیتا ہے ۔ یہ کہہ دینا کافی ہے کہ علم محبت یا نفرت کی جانب دھکیلنے کی بھرپور صلاحیت رکھتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ آج کے اس ترقی یافتہ دور میں بھی علم کی فروانی پر ایک مخصوص طبقہ قدغن لگانے کی ہر ممکن کوششوں میں مصروف عمل ہے ، یہ غلام ہیں اور دوسروں کو بھی غلام ہی رکھنا چاہتے ہیں ۔

دائرہ اسلام میں داخل ہونے والوں کی کثیر تعداد ایسی تھی کہ جنہوں نے ہمارے پیارے نبی ﷺ کی گزشتہ زندگی کو مد نظر رکھتے ہوئے آپکی سچائی اور آمانت داری کی بدولت آپ ﷺ کی پکار پر لبیک کہا، جسکے بعد انہیں کیسے کیسے آلام و مصائب کا سامنا کرنا پڑا لیکن یہ حقیقت میں انتہائی اعلی مرتبت اصحاب تھے کے مجال کوئی کلمہ حق سے مکر گیا ہو ۔ تاریخ میں محبت کی یہ انوکھی داغ بیل یہیں سے ڈالی گئی پھر کیا تھا ہمارے پیارے نبی ﷺ نے رہتی دنیا کیلئے سلامتی ، امن ، محبت کا پیغام عام کرنے کیلئے اپنی سنتوں سے آراستہ اور نسخہ کیمیاء قران کریم کو امت کیلئے چھوڑا ۔ یہ مثالیں شدید سنگینی پر مبنی تھیں ، جن کا اعتراف رہتی دنیا تک کیا جاتا رہیگا ۔

ہم اپنی دانست میں یہ سمجھ لیتے ہیں کہ فلاں نے ہمارے ساتھ ایسا کردیا اسے ایسا نہیں کرنا چاہئے تھابات یہاں ختم نہیں ہوتی بدلا لینے کا موقع ڈھونڈنا شروع کردیا جاتا ہے اور بعض دفعہ تو موقع بنا لیا جاتا ہے اور اس موقع پر ایسے ایسے بدلے لئے جارہے ہیں کے روح کانپ کر رہ جاتی ہے ۔ حال ہی میں دو ایسے واقعات جن میں اسلام آباد میں ایک خاتون کے ٹکڑے مرد کے ہاتھوں کئے جانا اور دوسرا کراچی میں ایک مرد کے خاتون کے ہاتھوں ٹکڑے کئے جانادلوں کو لرزا دینے کیلئے کافی ہیں ۔

ان واقعات کی سنگینی کی نوعیت عملی طور پر واضح ہوچکی ہے ۔ لیکن قابل ذکر یہ ہے کہ بدلا خود ہی لے لیا گیا ہے اور معاشرے میں قانون کی عدم دستیابی اور معاشرتی ابتری کی گواہی پیش کردی گئی ۔ دوسری طرف قانون کے اپاہج ہونے کی بھی بھرپور وضاحت کردی گئی ہے ۔ یہاں ایک اور بات بھی واضح کرتے چلیں کے ہمارے معاشرے میں ایک عام تاثر ہے کہ یہاں جس کے ذمے جو کام ہے وہ اس کے علاوہ سب کاموں میں دخل اندازی کرنا اپنا حق سمجھ رہا ہے جس کی وجہ سے معاشرے میں مزید بگاڑ کی صورتحال پیدا ہوتی جا رہی ہے ، جو کچھ صحیح تھا وہ بھی غلط روش پر گامزن ہونے جا رہا ہے ۔

طبعی خدوخال سے محبت تبدیل ہوکر ہوس کی صورت اختیار کرلیتی ہے ، جس کے حصول کیلئے چوری اور ڈاکہ بھی ڈالا جاتا ہے اور بوقت ضرورت ناحق خون بھی بہا دیاجاتاہے اورپھر کیا ،بربادی کا راستہ کھل جاتا ہے ۔ اس کے برعکس روح سے محبت ہواءوں میں سفر کراتی ہے اور ایک ایسی دنیا کا باسی بنا دیتی ہے جہاں سب کے ہوتے ہوئے بھی کوئی نہیں ہوتا (یا پھر کسی کی ضرورت باقی نہیں رہتی )اور ہر طرف نغمہ لالہ و گل کا بسیرا ہوتا ہے ، جہاں اندھیروں میں بھی روشنیوں کا بسیرا ہوتا ہے ۔

ایسی محبت میں مبتلاء ہونے والے اپنے خالقِ حقیقی کی طرف کھلنے والے راستوں کے راہی ہوتے چلے جاتے ہیں ۔ ایک انتہائی معنی خیز جملہ !وہ اسی کو میسر ہوتا ہے جو اسے پانا چاہتا ہے ۔ یہاں یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ کیا محبت کو جتانے کی ضرورت ہوتی ہے اگر ہوتی ہے تو کیوں ، کیا اس کا کوئی ایسا ظاہری فائدہ ہوتا ہے کہ جس کی وجہ سے مجنوں کہلائے جانے میں فخر کیا جاسکے ۔ ہوسکتا ہے کہ یہ ایک الگ بحث ہو اور عرصہ دراز سے چلی آرہی ہو اور رہتی دنیا تک کیلئے چلتی جا رہی ہو ۔

انسان کا بغیر کسی شرط کے مان لینا بہت اہم ہے ویسے جس سے محبت کی جائے اسکی بات مان لینا کسی اعزاز سے کم نہیں ہوتا ۔ بڑوں کا کہا ماننا اور اس سے بڑھ کر سب سے بڑے اور ستر ماءوں سے زیادہ پیار کرنے والے کا کہا مان لینا کسی بھی طرح سے نقصان کی طرف نہیں لیکر جائے گا ۔ سعادت حسن منٹو لکھتے ہیں کہ وہ لوگ بیوقوف ہوتے ہیں جو سمجھتے ہیں کہ بندوقوں سے مذہب شکار کئے جا سکتے ہیں ۔

مذہب، دین ، ایمان، دھرم ، یقین ، عقیدت ۔ ۔ ۔ یہ جو کچھ بھی ہے ہمارے جسم میں نہیں ، روح میں ہوتا ہے جو چھرے ، چاقو یا گولی سے یہ فنا نہیں ہوسکتا ۔ پاکستان اللہ رب العزت کی ایک واضح نعمتِ عظیم عطاء ہے ، یہ بھی کہا جائے تو غلط نہیں کہ معجزہ ہے ، جہاں بسنے والے اللہ کے رسول ﷺ کے سچے عاشق ہیں جسکی گواہی یہ قوم بارہا دیتی جا رہی ہے (اور اس جذبے کی آبیار ی غازی علم دین شہید نے خوب کی ہے ) ۔ دنیا میں کسی کونے میں بھی توہین رسالت ﷺ یا دین اسلام کی توہین کی جائے تو اس کے خلاف سب سے پہلی آواز ہم پاکستانیوں کی ہوتی ہے ، آج تقریباً ساری دنیا اس انوکھی محبت کی معترف ہوچکی ہے ۔ ہم نے سفارتی تعلقات کی فکر کی اور نا ہی کسی مصلحت کا سہارا لیا ہے ۔ وزیر اعظم عمران خان صاحب کا مدینہ کی ریاست بنانے کے خواب کے پیچھے بھی ایسی ہی فکر کارفرما ہے ۔ لمحہ فکریہ یہ ہے کہ ہم دنیا کو اس عشق ِ محمد ﷺ کیلئے قائل نہیں کرسکے ہیں ۔

ہم پاکستانی اپنی املاک کو نقصان پہنچاتے ہیں انہیں آگ لگا دیتے ہیں معیشت کا پہیہ جام کردیتے ہیں غرض یہ کہ ہم پاکستانیوں نے دنیا کو اپنی محبت کی باطنی شکل تو خوب دیکھا ئی ہے جبکہ دوسری طرف ہم اپنی ایمانی محبت کی فکر سے دور کہیں بھٹکتے ہوئے پائے گئے ہیں ، ہم ہی وہ لوگ ہیں کہ جن کے درمیان سفاکی کی اعلی ترین مثالیں قائم کی گئیں ہیں معصوم بچوں کیساتھ ہونے والے انسانیت سوز واقعات اور ہماری خواتین کیساتھ سرِراہ ہونے والے واقعات اس سے بڑھ کر ابھی کیا کچھ ہونا باقی ہے جس کو سوچ کر سر ندامت سے جھکا ہی چلا جاتا ہے ۔ یہ واقعات معاشرے کی بدنمائی کو منظر عام پر لاتے ہی جا رہیں ہیں اور اس بد نمائی کی بنیادی وجہ ہمارا نظام عدل ہے ، اگر گناہگار کو اسکے کئے کی سزا بروقت دے دی جائے یا دے دی جاتی تو یقینا ان واقعات پر قابو پایا جاسکتا تھا ۔ یہاں تو میر درد کے شعر کی عکاسی کی جارہی ہے کے جس میں انہوں نے کہا تھا کہ ;

تہمتیں چند اپنے ذمے دھر چلے!

کیا کرنے آئے تھے اور کیا کرچلے!

یہ شعر مخصوص عدلیہ کیلئے وقف کیا جارہا ہے ۔ ہم پاکستانی عملی طور پر اپنے امتی ہونے کا ثبوت کب پیش کرینگے ، ہم نے حلیے بنا لئے ہیں ، ہم نے تہوار منا لئے ہیں ، غرض یہ کے ہم عشق محمد ﷺ کے اتنے بڑے داعی بنے بیٹھے ہیں کہ باقی مسلم ممالک ہم سے شرمندہ دیکھائی دیتے ہیں ۔ شائد ہ میں افسوس اس بات کا کر لینا چاہئے کہ ہم نے محبت ،علم کے بغیر کی ہے جس کی وجہ سے شائد ہم محبت کی بدنامی کا سبب بن رہے ہیں یا پھر ہم کسی انوکھی محبت کی نئی داستان رقم کر رہے ہیں ۔

مضمون ہذا بہت مشکل سے تکمیل کو پہنچا ہے اس کی وجہ وہ خوف ہے کہ کہیں الفاظ کی سمجھ اور ناسمجھ ہ میں کسی مشکل سے دوچار نا کردے لیکن قلم نے قلب تک رسائی کی ٹھانی ہوئی ہے اسلئے قارئین ہمارے پیارے نبی ﷺ حجتہ الوداع کا خطبہ ہفتے میں مہینے میں یا کبھی کبھار ضرور پڑھ لیا کریں اور اپنے حلقے میں بھی پیش کردیا کریں ۔ ساری انسانی حقوق کی تنظیمیں اسی کی بنیاد پر کام کر رہی ہیں اور پھر ہم تو محسنِ انسانیت ﷺ کے حقیقی ماننے والے ہیں ۔ اللہ تعالی ہ میں اپنے پیارے رسول ﷺ سے سچی اور بامعنی محبت کرنے کی توفیق عطاء فرمائے ۔ آمین یا رب العالمین ۔

حصہ
mm
شیخ خالد زاہد، ملک کے مختلف اخبارات اور ویب سائٹس پر سیاسی اور معاشرتی معاملات پر قلم سے قلب تک کے عنوان سے مضامین لکھتے ہیں۔ ان کا سمجھنا ہے کہ انکا قلم معاشرے میں تحمل اور برداشت کی فضاء قائم کرنے میں اہم کردار ادا کرسکتا ہے اور دوسرے لکھنے والوں سے بھی اسی بات کی توقع رکھتے ہیں کہ قلم کو نفرت مٹانے کیلئے استعمال کریں۔