وبائی صورتحال کے دوران جہاں دنیا بھر کی معیشتوں کو بے شمار چیلنجز کا سامنا ہے وہاں بے روزگاری کا مسئلہ بھی گھمبیر ہوتا جا رہا ہے۔روزگار کے متلاشی افراد کی تعداد بڑھتی چلی جا رہی ہے مگر وسائل کی عدم دستیابی روزگار کے نئے مواقعوں کی راہ میں حائل بڑی رکاوٹ ہے۔
موجودہ صورتحال میں ایسا کہنے میں تو کافی مشکل لگتا ہے کہ سال کے اندر روزگار کے ایک کروڑ سے زائد نئے مواقع پیدا کیے جائیں لیکن چین نے ایسا کر دکھایا ہے اور وہ بھی صرف گیارہ ماہ میں۔چین کے قومی شماریات بیورو کے تازہ ترین اعداد و شمار کے مطابق رواں سال جنوری سے نومبر تک ملک بھر کے شہری اور دیہی علاقوں میں 12.07 ملین نئی ملازمتیں پیدا کی گئی ہیں جو کہ سالانہ متوقع ہدف سے زیادہ ہیں۔نومبر میں، ملک گیر شہری سروے نتائج کے مطابق بے روزگاری کی شرح 5 فیصد تھی، جس میں سال بہ سال 0.2 فیصدکمی آئی ہے۔
رواں سال کے آغاز ہی سے چین کی معیشت میں مستحکم طور پر بحالی کا عمل دیکھا گیا ۔ کاروباری اداروں کی پیداوار اور آپریشن کے امور میں نسبتاً استحکام نے روزگار کی طلب اور روزگار کی ترقی کے لئے بنیادی مدد فراہم کی ہے جبکہ روزگار کی ترجیحی پالیسیوں کا ایک سلسلہ مکمل طور پر نافذ کیا گیا تاکہ مستحکم روزگار کی صورتحال کو آگے بڑھایا جا سکے۔چین میں روزگار کی فراہمی میں انوویشن انٹرپرینیورشپ روزگار کی ترقی کے لیے ایک پائیدار محرک کا کردار ادا کر رہی ہے۔ابھی حال ہی میں بیجنگ میں منعقدہ مرکزی اقتصادی ورک کانفرنس میں یہ تجویز پیش کی گئی کہ اعلیٰ معیار کی ترقی کے فروغ میں روزگار کے ترجیحی رجحان کی مضبوطی اور معاشی ترقی کے لیے روزگار کی محرک قوت میں اضافہ نہایت ضروری ہے یہی وجہ ہے کہ مجموعی طور پر روزگار کی صورتحال مستحکم ہے، اور لوگوں کے مفاد، خوشی اور تحفظ کے احساس میں اضافے کا عمل جاری ہے ۔
یہ بات قابل زکر ہے کہ وبائی اثرات اور معیشت پر پڑنے والے دباؤ کا سامنا کرتے ہوئے، چین روزگار کو مستحکم رکھنے کی کوشش کر رہا ہے۔ اس ضمن میں معاشی اور سماجی ترقی کے ساتھ ساتھ میکرو پالیسیوں میں روزگار کو ترجیح دی جا رہی ہے۔ معیشت کی مزید بحالی اور کاروباری اداروں کو اپنے پیروں پر کھڑا کرنے کی بدولت 2021 میں ملک کی ملازمت کی منڈی میں تیزی دیکھی گئی۔چین کی کوشش ہے کہ اعلیٰ معیار کی ترقی کے حصول کے لیے “جاب فرسٹ پالیسی” کے نفاذ کو مضبوط بنایا جائے اور روزگار کے فروغ میں اقتصادی ترقی کے کردار کو بہتر طریقے سے استعمال کیا جائے۔اس مقصد کی خاطر چین مالیاتی، سرمایہ کاری، صنعتی اور دیگر پالیسیوں کی ضرورت پر مزید زور دے رہا ہے تاکہ روزگار کے مواقع پیدا کیے جا سکیں، معاشی ترقی کی صلاحیت کو بڑھایا جا سکے اور کم اور درمیانی آمدنی والے گروہوں کو فائدہ پہنچایا جا سکے۔
رئیل اکانومی پر پڑنے والے دباؤ کو کم کرنے کے لیے، چین نے حال ہی میں مالیاتی اداروں کے لیے ریزرو ضرورت کے تناسب میں کمی کا اعلان کیا ہے جس سے چین کی لیبر مارکیٹ کو ایک مثبت اشارہ ملا ہے۔چین کی وزارت انسانی وسائل و سماجی تحفظ کے مطابق رواں سال کے پہلے نو مہینوں میں روزگار کی مد میں 67.2 بلین یوآن (تقریباً 10.6 بلین امریکی ڈالر) کی سبسڈی دی گئی، جب کہ 15.1 بلین یوآن مالیت کے انشورنس پریمیم کاروباری اداروں کو واپس کیے گئے تاکہ انہیں مستحکم پے رولز کو برقرار رکھنے میں مدد ملے۔
روزگار کے ایک اہم گروپ کے طور پر 2022 میں کالج گریجویٹس کی تعداد 10.76 ملین تک پہنچنے کی توقع ہے، جس میں شرح اضافہ رواں سال کی نسبت 1.67 ملین ہے۔اسی باعث نوجوانوں بشمول کالج گریجویٹس کے لیے روزگار کے مواقع بڑھانے کے لیے کوششیں کی جا رہی ہیں اور لچکدار روزگار اور سماجی تحفظ کی پالیسیوں کو بہتر بنایا جا رہا ہے۔چین کی کوشش ہے کہ “سپلائی اور سروسز “کو بہتر بناتے ہوئے ساتھ مزید ملازمتیں پیدا کی جائیں، جبکہ کیریئر کی رہنمائی اور پیشہ ورانہ تربیت کو فروغ دیا جائے جس سےپرائمری سطح کی کمیونٹیز میں ملازمتوں میں اضافہ ممکن ہے۔
اسی طرح دیہی علاقوں میں بھی مستحکم روزگار کو یقینی بنانے کے لیے موئثر اقدامات جاری ہیں ۔چین کی قیادت سمجھتی ہے کہ روزگار ،غربت کےخاتمےاوردیہی احیاءکوفروغ دینےمیں کلیدی عنصر ہے۔اس ضمن میں غربت سےنجات پانے والےلوگوں کے مستحکم روزگارکےلیےطویل مدتی طریقہ کار اپنایا جا رہا ہے،دیہی لوگوں کے لیےروزگار کی تلاش،انکی آمدنی بڑھانے،کاروبارشروع کرنےمیں انکی مددکرنے،اوردیہ یاحیاءکےلیےحوصلہ افزائی جاری ہے۔اسی طرح شہری اور دیہی علاقوں میں ای کامرس جیسے جدید منصوبوں سے بھی روزگار کے مسئلے کو نمایاں حد تک کم کرنے میں مدد ملی ہے ۔یوں وبا جیسی مشکل صورتحال میں لوگوں کو مستحکم روزگار کی فراہمی سے چین کی عوام دوست پالیسیاں مزید کھل کر سامنے آئی ہیں ، جو یقیناً قابل تعریف اور قابل تقلید ہیں۔