ہوا اورپانی انسانی زندگی ہی نہیں بلکہ کائنات کے وجود وبقا کے لیے خالق کائنات کی پیدا کردہ نعمتوں میں سے عظیم نعمتیں ہیں۔ انسان کی تخلیق سے لے کر کائنات کے تخلیق تک سبھی چیزوں میں پانی اورہوا کی جلوہ گری نظر آتی ہے۔اس کرئہ ارضی پر جتنے بھی جاندار ہیں ان سب کے زندگی کی بقا پانی پرہی منحصر ہے۔
زمین جب مردہ ہوجاتی ہے تو آسمان سے آب ِحیات بن کر بارش اس سے ہم آغوش ہوجاتی ہے اور اسی طرح اس کے لیے زندگی کا سامان مہیا کرتی ہے۔ آج پوری دنیا پانی کی قلت اور بڑھتی ہوئی حرارت سے پریشان ہے۔ کئی ممالک پانی کی صیانت و حفاظت کے لیے نئی نئی تکنیک کو اپنارہے ہیں۔بلکہ اب یہ بھی کہاجانے لگا ہے کہ آئندہ صدیوں میں جو جنگیں ہوں گی وہ پانی پر ہوں گی۔موجودہ صورتحال میں امت مسلمہ کا فرض بنتا ہے کہ وہ پانی کی اہمیت و افادیت کے پیش نظر دنیا کے سامنے ایک مثالی نمونہ پیش کریں۔اللہ تعالی کی ذات بابرکت پاک ہے اور وہ پاکی اختیار کرنے والوں کو پسند کرتا ہے۔قرآن اور پانی:کائنات کی یہ رنگارنگ، نہریں و آبشار،جھرنے و تالاب،ندیاں وسمندر ،ہر بھرے باغات وچمنستان ،سنبلستان ،گلستان ،مرغزار،نباتات وجمادات ،کی وجود وبقاکا انحصار پانی پر ہی ہے۔
قرآن کریم میں خالق کائنات کا ارشاد ہے کہ ’’ہم نے ہرجاندار کی تخلیق پانی سے کی ‘‘(الانبیاء)دوسری جگہ ارشاد ہے’’وہ اللہ ہی نے جس نے ہرچلنے والے جاندارکو(بری ہوبحری) پانی سے پیدا فرمایا۔ (النور )قرآن کریم میں تقریباََ 58مرتبہ پانی کا تذکرہ آیا ہے۔جہاں پانی کو انسان کی پیاس بجھانے کا ذریعہ بتایا ہے(الواقعہ )وہی دوسری طرف اس کی تطہیرکا سامان بھی ہے(الانفال )جہاں یہ کھیتوں ،پھولوں، پھلوں کی شادابی سیرابی کا ذریعہ ہے تو دوسری طرف چوپایوں کو بھی مستفید کرتا ہے۔ پانی سے انسان دیرپا استفادہ کرسکے، زمین کے اندر جذب کرنے کی صلاحیت پیداکردی گئی ہے(المومنون) آسمان سے بارش کا انتظام کیا(نباء )اور زمین کی تہو ں میں پانی جیسی لازوال دولت رکھ دی گئی ،پھرفرمایا گیا کہ ’’تم اپنے رب کی کن کن نعمتوں کو جھٹلا ؤ گے (ا لرحمن)۔زمین سے جو کونپلیں نکلتی ہیں اور پھرآہستہ آہستہ سایہ دار درختوں کی شکل اور لہلاتے ہوئے سرسبز پودوں کھلتے ہوئے پھولوں کے سانچے میں ڈھل جاتی ہیں (لقمان ) اللہ تبارک تعالی ارشاد فرماتے ہیںکہ’’زمین جب مردہ ہوجاتی ہے تو آسمان سے آب حیات بن کر بارش اس کے لیے زندگی کا سامان پیداکرتی ہے ،
مردہ کو دوبارہ زندہ کرتی ہے۔(النحل )۔اگر پانی نہ ہوتا تو انسانی زندگی وجود خطرہ میں پڑجاتاہے۔ آج بھی ہزاروں لوگ صرف پانی وقحط کی وجہ سے مرجاتے ہیں۔احادیث اور پانی :احایث مبارکہ ،اقوال صحابہ وتابعین ،برزگان دین و ائمہ مجتہدین کے یہاں پانی کے استعمال اور احتیاط کے بار ے میں اقوال پا ئے جاتے ہیں اسی طرح جو تدبیریں و طریقہ پایا جاتا ہے ،اس سے پانی کی اہمیت و ضرورت پرروشنی پڑتی ہے۔ آج پوری دنیا میں پانی کی سب سے زیادہ ضرو رت مسلمانوں کو ہی ہے،کیونکہ ان کے دین کا اہم رکن نماز پانی کے بغیرممکن نہیں ہے،و ضو وغسل ،طہارت و پاکیزگی کا دارو مدار صرف پانی ہی پر ہے۔ آپ سے دریافت کیا گیا کہ ایسی کون سی شئے ہے کہ جس سے انسانوں کومنع نہیں کیاجاسکتا ؟ تو آپ ؐنے فرمایا ’’وہ چیز پانی ہے‘‘(بخاری )
ایک مرتبہ ارشادفرمایاکہ ’’تین چیزیں ایسی ہیں جو سب کے لیے عام ہے پانی ،گھاس،آگ۔(ابوداؤد)۔ آپؐ خود پانی کا استعمال نہایت ہی کفایت شعاری سے کیاکرتے تھے۔ اللہ نے انسانوں کے لیے پانی کا انتظام مختلف طریقوں سے کر رکھا ہے۔دنیا بھر کا استعمال شدہ گندہ اور آلودہ پانی دریاؤں ،نہروں اور ندیوں کے ذریعہ اپنی تمام غلاظتوں کے ساتھ سمندر تک پہنچتا ہے ،سمندر کا نمکین پانی اس آلودگی کو جذب کرلیتا ہے،اگر سمندر کے کھار پانی میں آلودگی کو جذب کرنے کی صلاحیت نہ ہوتی تو انسانوں کے لیے اس کرہ ارض پر جینا مشکل ہوجاتا۔
سمندر کے اندر جوگندھک کی چادر پھیلی ہوئی ہے وہ پانی کو گھلاتی ہے دوسری طرف سورج بدن کو بھون، بھون کر سمندرکی اوپری سطح کو گرم کرتا ہے۔یہاں تک کہ سمندر سے بھانپ اٹھتی اور ہوائیں اسے اپنے دوش پر لیے پھرتی ہیں اورایک ایسے مقام پر لے جاتی ہیں کہ اسی بھانپ و بخارات میں کثافت پیداہوتی ہے اور یہی بخارات ابر رحمت بن کر انسانوں کوسیراب کرتے ہیں۔واشنگٹن ڈی سی کے تھنک ٹینک ورلڈ ریسورسز انسٹیٹیوٹ (ڈبلیو آر آئی) کے مطابق پاکستان سمیت دنیا میں ایسے تقریباً 400 علاقے ہیں جہاں کے رہنے والے شدید آبی مسائل کا سامنا کر رہے ہیں۔دنیا بھر میں بڑھتی ہوئی آبادی اور اقتصادی سرگرمیوں نے دنیا کے پانی کے ذخائر پر دباؤ بڑھا دیا ہے۔
خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ پانی کی کمی لاکھوں لوگوں کو نقل مکانی پر مجبور کر دے گی اور اس کی وجہ سے کشیدگی اور سیاسی عدم استحکام پیدا ہو گا۔چلی سے لے کر میکسیکو تک، افریقہ سے لے کر جنوبی یورپ کے سیاحتی مقامات تک آبی مسائل میں اضافہ ہی ہو رہا ہے۔ آبی مسائل سے درپیش علاقوں یعنی ’واٹر سٹریسڈ‘ علاقوں کا تعین اس معیار پر کیا جاتا ہے کہ وہاں موجود پانی کے وسائل کے مقابلے میں وہاں زیرِ زمین ذخائر اور دیگر سطحی ذخائر سے کتنا پانی استعمال کیا جا رہا ہے۔ فضائی آلودگی سے پیدا ہونے والی گلوبل وارمنگ بھی میٹھے پانی میں کمی کا باعث بن رہی ہے۔دنیا میں ہونے والی ہر بڑی کمی کا اثر سب سے پہلے ترقی پذیر ممالک کو ہی اپنی لپیٹ میں لیتا ہے اور پھر پانی تو ہر انسان کی ضرورت ہے ۔
آئی ایم ایف، یو این ڈی پی اور دیگر اداروں کی مختلف رپورٹس میں بھی کہا گیا ہے کہ پاکستان میں پانی کا بحران تیزی سے بڑھتا جا رہا ہے اور 2040ء تک پاکستان خطے کا سب سے کم پانی والا ملک بن سکتا ہے۔پاکستان میں سب سے زیادہ خشک سالی کا شکار صوبہ بلوچستان ہے جس کا دارومدار بارشوں پر ہے مگر گزشتہ کئی سالوں سے موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے بارشیں متاثر ہیں اور نہ ہونے کے برابر ہیں، صرف بلوچستان ہی نہیں پورے ملک میں بارشوں کا یہی حال ہے جبکہ زیر زمین پانی مزید نیچے سے نیچے ہوتا جارہا ہے، کئی مقامات پر تو 200 فٹ پر بھی پانی دستیاب نہیں، مگر استعمال میں کوئی احتیاط نہیں کررہا۔تاہم یہ بھی درست ہے کہ پاکستان میں پانی کی قلت و کمیابی کی ایک اہم وجہ پڑوسی ملک بھارت کا پاکستان کے آبی ذخائر پر ناجائز قبضہ ہے لیکن خود ہمارے اپنے غیر ذمے دارانہ رویے بھی نظر انداز نہیں کیے جا سکتے۔
اس لیے کہ گزشتہ 73 برس میں اس حوالے سے آخر کوئی بڑی منصوبہ بندی کیوں نہیں کی گئی؟ارباب حکومت اور عوام الناس کو سمجھنا ہو گا کہ اگر وہ اس انجام سے بچنا چاہتے ہیں تو قلت آب پر قابو پانے کے لیے جامع منصوبہ بندی کے سخت جنگی بنیادوں پر فوری اور ٹھوس اقدامات کرنے ہوں گے۔ پانی کی فراہمی میں روز افزوں ہونے والی کمی سے نمٹنے کے لیے دنیا کے کئی ممالک بڑے پر زور طریقے سے جدوجہد کر رہے ہیں لیکن وطن عزیز میں اس صورتحال کی سنگینی کو صحیح انداز میں محسوس نہیں کیا جا رہا۔