{لوگوں کے حساب کا وقت قریب آگیا پھر بھی وہ بے خبری میں منہ پھیرے ہوئے ہیں} (سورہ انبیآ ٕ : ٠١)
`ایک`چیز ہوتی ہے بے خبری، یعنی کسی بات کا پتہ ہی نہ ہونا۔
`ایک`چیز یہ ہوتی ہے کہ کسی بات کے بارے میں جانتے ہوۓ اس سے منہ پھیر لینا۔صرفِ نظر کرلینا یا غفلت برتنا۔
کسی چیز سے منہ تب پھیرا جاتا ہےجب اس کی حقیقت سے نظر چرانی ہو،عموماً کوٸ شخص ایسا تب کرتا ہے جب وہ کسی چیز کے پیش نظر اپنے افعال کو متاثر کرنا اور اعمال کو بدلنا نہیں چاہ رہا ہوتا۔۔۔ `”یوم حساب“` سے مراد قیامت ہے، `اللّٰہ` کہتے ہیں کہ انہوں نے بے خبری میں منہ پھیرا ہوا ہے۔۔ `یہ بے خبری کس چیز سے ہے؟`ہمارا تو ایمان ہی قیامت پر یقین کے بغیر مکمل نہیں ہوتا ہم تو یوم حساب سے اچھی طرح واقف ہیں پھر ہم کس چیز سے بے خبر ہیں۔
دراصل ہم بے خبر اس `وجہ` سے ہیں جو اس دن سے لاپرواہی اور غفلت برتنے کے پیچھے کار فرماں ہے۔۔۔وہ `وجہ` ہے زندگی اپنی مرضی سے، اپنے مطابق گزارنے کی خواہش ۔۔۔۔۔یہ ہے وہ چیز جو قیامت کے اتنے قریب آجانے کے بعد بھی ہمیں اس اٹل حقیقت سے نظریں چرانے پر مجبور کۓ ہوۓ ہے۔ہم بے خبر اپنی غلطیوں،گناہوں اور کوتاہیوں سے ہیں،ان سب چیزوں کی اصلاح بھی صرف تب ہی ممکن ہے جب انکو “`identify“` کیا جاۓ، جب ان سے بچنے کی خواہش کی جاۓ،صرف “`جوابدہی“` کا احساس یہ چیزیں سوچنے پر مجبور کرتا ہے۔۔
ہر ایک کام، ہر ایک فعل کے وقت ذہن کے ایک گوشے میں فکر آخرت کا ہونا بندے کی ساری لغو خواہشات،اور من مانیوں کو دبا دیتا ہے اللّٰہ کی رضا ہی اسکی مرضی بن جاتی ہے،وہ اپنی خواہشات کو اللّٰہ کی رضا کے مطابق ڈھال لیتا اور ایسا وہ بہت خوشی سے کرتا ہے مجبوراً نہیں!!!عبادت کی ریاضت اور اعمال کی مشقت اسے تھکاتی نہیں ہے بلکہ وہ اپنی منزل پر نظریں جماۓ کشاں کشاں اس کی طرف بڑھ رہا ہوتا ہے۔
“سب سے اہم بات “کسی حقیقت سے نظر یں چرالینا نہ تو اس سے بچا سکتا ہے اور نہ اسے بدل سکتا ہے۔۔ہمارا منہ پھیرنا نہ تو قیامت کو ٹال سکتا ہے نہ ہی اس دن سے ہمیں بچا سکتا ہے۔۔۔پھر کیا زیادہ بہتر یہ نہیں ہے کہ ہم اس فنا ہوجانے والی اور دھوکے کی جگہ پر سے نظریں ہٹا کر اس اٹل حقیقت اور داٸمی اور عظیم کامیابی پر جما دیں؟