16 دسمبر 1971 تاریخ کا المناک دن جب حق تلفیوں کے باعث جغرافیے تبدیل ہوگئے ۔ پاکستان دو ٹکڑے ہوگیا ۔
ڈھاکہ کی کہانی پاکستان کی تقسیم کے ساتھ ہی شروع ہوتی ہے۔ انگریزوں نے مشرقی اور مغربی بنگال میں پاکستان کو تقسیم تو کر دیا،مگر ہندو اس بات سے ناراض تھے ۔ بلکہ وہ تمام قوتیں جو کہ اسلام دشمن تھیں پاکستان بننے کے بعد انہیں اس کا عروج اور بھائی چارہ گوارا نہ تھا ۔ پینسٹھ کی جنگ کے بعد سے ہی سازشوں کا باقاعدہ آغاز ہو چکا تھا۔ بنگالیوں کی اکثریت کو اقتدار نہیں دیا گیا بلکہ بیوروکریسی۔اعلی سرکار ی عہدیدار اور سیاسی قوتوں نے مل کر ہندو بیوروکریسی اور مغربی پاکستان سے تعلق رکھنے والےخود پسند افسران چن چن کر باقاعدہ سازش کے تحت منتخب کیے جو اپنے طرز عمل سے سے بنگالی عوام یا “مشرقی پاکستان” کے عوام میں نفرت پھیلانے کا سبب بنے ۔
تعلیم کی باگ ڈور ایسے تعصب پسند ہندوؤں کے ہاتھ میں تھما دی گئی، جو مسلمان ہی نہیں انسانیت کے بھی دشمن تھے اور تقسیم کا بدلہ ان کے دلوں میں تھا لہذا ہندو بنگالی کمیونسٹ اساتذہ نے طلبہ کا ذہن اسلام اور پاکستان کے خلاف بنایا۔طلبہ کی برین واشنگ کی گئی گی اور لسانی فرق ان کے ذہنوں میں پختہ کر دیا گیا۔نا عاقبت اندیشانہ سرکاری پالیسیوں کے نتیجے میں عام بنگالی خود کو غیر محفوظ تصور کرنے لگا اور یہ حقیقت ہے کہ
” ممکن نہیں محکوم ہو آزاد کا ہمدوش “
معاشی اور اقتصادی عدم مساوات کے ذریعے مشرقی پاکستان کا استحصال کیا گیا ۔ صنعتی سرمایہ کاری جو قیام پاکستان کے بعد دونوں بازوؤں کی اہم ضرورت تھی وہ مغربی پاکستان میں زیادہ ہوئی کیونکہ کراچی مغربی پاکستان کا حصہ تھا اور برصغیر کے بعد دوسری “سونے کی چڑیا “- لہذا سرمایہ دار وہیں سرمایہ کاری کرتے جہاں انہیں فائدہ زیادہ ہوتا ۔ سو ہر گزرتے دن کے ساتھ مغربی پاکستان خوشحال ہوتا گیا اور مشرقی پاکستان میں کوئی خاص بہتری پیدا نہ ہوئی ۔ یہاں ڈیم بنتے رہے وہاں مشرقی پاکستان سیلابوں میں ڈوبتا رہا ۔
اندرون خانہ مکتی باہنی کی مدد کی جانے لگی۔ باغباں برق و شرر کے ساتھ مل گئے اور “گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے”۔جنرل ایوب کے دور میں مشرقی پاکستان میں بغاوت کے شعلے بلند ہوئے اور مجیب الرحمن کے چھ نکاتی ایجنڈا نے بنگلہ میں تعصب کی آگ پھیلا دی۔ مشرقی حصے کو آزاد بنگلہ کا سہانا خواب دکھا کر ان کے جذبات سے کھیلا گیا یا یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا کا کہ یہ چھ نکاتی ایجنڈہ در پردہ علیحدگی کا منصوبہ تھا ۔ اس پر مستزاد” ادھر تم ادھر ہم” کے نعرے نے ملک کو سنگین گرداب کا شکار کردیا اور علیحدہ ریاست کے قیام کی راہ ہموار کردی ۔بالآخر 16 دسمبر 1971 کو ” پھولوں اور پانیوں کی سر زمین ڈھاکہ،” “مسجدوں کا شہر ڈھاکہ”، بھارتی جنرل کے حوالے کر دیا گیا اور ایک اجتماعی اور طویل سازش اپنے منطقی انجام کو پہنچی
“گنوا دی اسلاف سے میراث جو پائی تھی”
اندرا گاندھی نے خوشی سے جھومتے ہوئے کہا کہ” ایک ہزار سالہ تاریخ کا انتقام لے لیا گیا ہے ۔دو قومی نظریے کی تاریخ کو خلیج بنگال کے پانیوں میں غرق کر دیا “……انیس سو ستر کے انتخابی نتائج کے بعد اگر اسٹیبلشمنٹ احتیاط سے کام لیتی ، مغربی پاکستان سے اسلام اور دل کا رشتہ مضبوط کیا جاتا ،اجلاس میں ڈھاکہ جانے والوں کو ٹانگیں توڑنے کی دھمکیاں نہ دی جاتیں تو آئینی اور سیاسی ناانصافیوں کےباوجود اس دبی ہوئی چنگاری کو ہرگز ہوا نہ ملتی اور علیحدگی کی نوبت نہ آتی۔ اب بھی ہوش سے کام لیا جائے تو سقوط ڈھاکہ ہماری نسل کے لئے بڑا اہم پیغام ہے کہ” “دیکھے مجھے جو دیدہ عبرت نگاہ ہو “…….ورنہ شاید کہ ہم وہ آ خری نسل ہوں جو اس سانحہ سے واقف ہیں۔