بڑھتی ہوئی مہنگائی سے جن خواص کو اثر نہیں پڑا وہ اعلیٰ اشرافیہ ،قومی اسمبلی ممبران، سرکاری افسران، سرمایہ دار ،ذخیرہ اندوز ہیں۔ حقیقتاً مہنگائی نے ان کا بال بھی بیکا نہ کیا جو کیا ہوتا تو بھوکے پیٹوں کو” گھبرانا نہیں ہے” کی ظالمانہ نصیحت نہ کرتے۔
حاکم وقت نے ثابت کیا کہ وہ عام عوام کے نہیں ایلیٹ طبقے کے حاکم ہیں۔غریب عوام دشمن پالیسی نے طبقاتی تقسیم پیدا کردی ہے۔اک عرب غلام کی کہانی مصداق نئے مہربان آقا کی تلاش میں زندگی بد سے بدتر ہوگئی۔عام عوام نے دو مخصوص خاندانوں سے جان چھڑا کر تبدیلی کے پرفریب نعرے کا صرف اک مطلب لیا کہ غربت بے روزگاری ختم ہوگی زندگی آسان ہوگی۔افسوس حکومت عوام کی توقعات پر پورا نہ اتری اپنے منشور کے برعکس چلی۔
مہنگائی کی حالیہ لہر ہماری ملکی تاریخ کی شدید بدترین لہر ہے۔نعرے حقیقت میں نہیں بدلے وعدے جھوٹے ثابت ہوئے۔وزراء ترجمان کے پاس صرف تاویلات ہیں۔لیکن وائے حیرت ریاست مدینہ سے متاثرین کی تاویل کیا قابل قبول ہے حکومت وزراء ترجمان ماہر معاشیات اگر نبی صلی الله عليه وسلم کے معشیت کنٹرول طرائق کو جانتے اور عمل کی کوشش کرتے تو ہرگز مہنگائی سے نمٹنے میں فیل نہ ہوتے۔حاکم وقت عزت چاہتا ہے تو عوام کو سستائی دے۔اگر یہ ناممکن تو معاشرے کی بے اعتدالی کا سوال صرف اس سے ہوگا۔اللہ کے ہاں کوئی تاویل چلے گی۔حکمران پالیسی ساز اصلاح کریں ورنہ روٹی اوربھوک بادشاہت آمریت کے تخت الٹ دیتی ہے۔
یہ ہی مہینہ تھا جب اسی طرح کی طبقاتی کشمکش اور معاشی استحصال جیسی وجوہات پر سقوط ڈھاکہ ہوا تاریخ سے عبرت لیں۔خدانخواستہ کسی نئے سانحے سے بچیںمہنگائی کے خلاف احتجاج تو ہوتا رہے گا لیکن اب اس مسئلہ عظیم سے نبٹیں کیونکر جب تک کہ یہ مسئلہ حل نہیں ہوجاتا تب تک اپنی بساط سمجھ بوجھ مطابق بجٹ مینِج کرنے کی کوششیں ضروری ہیں۔ اس حوالے سے کچھ ٹپس جو خود استعمال کیں حاضر ہیں۔ ہوش ربا گرانی ہمارے بجٹ پر یوں اثر انداز ہوئی کہ درویشی تو اختیار نہیں کی لیکن رینڈملی شاپنگ سے قطعی گریز کیا بازار فہرست کے ساتھ جاتے۔فہرست سے باہر دل موہنے والی ہر شے کو ٹوٹلی اگنور کیا مشینی انداز میں شاپنگ کر کے واپس ہولیتے۔
وہ اشیاء جن کے بغیر گزارا ممکن تھا اور ان اشیاء کی قیمت حد سے تجاوز کر گئیں تو ان کی خرید وفروخت بند کردی۔ یہ طریقہ ویسے احتجاج کا بھی حصہ ہے بھلے سے ہمارے ہاں احتجاج شنوائی ہو چہ نہ ہو لیکن زندگی سادہ ضرور ہوجائے گی۔دوران شاپنگ ہر دفعہ برانڈ اپنانے سے گریز کیا سال میں اک دفعہ اعلیٰ برانڈڈ کمپنی کاجوتا ،بیگ ،گاؤن اور دو عید کے برانڈڈ سوٹ کو کافی سمجھا پورے سال خوب استعمال کیا گھسیٹا بوسیدہ کیا۔قیمتی چیز چلتی زیادہ ہے۔عام روٹین میں برانڈ کے علاوہ لباس کو ترجیح دی۔کاسمیٹک خریداری کنٹرول کی۔علاقائی مصنوعات مہنگی نہیں ہوتیں سوٹ بھی کرتیں ہیں ۔نائٹ کریم اسٹیل ملز فئیرنس کریم تبت اور سعید غنی سوپ استعمال کیے۔البتہ اشیاء خوردونوش پر کنٹرول کی کئی دفعہ کوشش کی لیکن ضبط نفس نہ ہوسکا۔ مہنگی سبزی مٹر بھی خریدی گوشت بھی کھایا۔گھر کی شادی میں مایوں مہندی کی تقریبات اور لباس کے خرچے کی بچت بھی کی مختصر یہ کہ مہنگائی سے حواس باختہ ضرور ہیں لیکن مقروض نہیں الحمدللّٰہ۔
امید ہے یہ مشورے آپ کے لیے کار آمد ثابت ہونگے۔جیسے جیسے وقت گزر رہا ہے۔ ذاتی اور اجتماعی بہت سے خسارے حصے میں آرہے ہیں ۔معاشی خسارہ ،اخلاقی خسارہ ،سب سے بڑھ کر دین کا نقصان تو آنے والے سال میں اللہ سے توقعات ہیں۔وطن اور امت مسلمہ کے لیے کہ 2022 کا ہر سورج اسلام کی نشاة ثانیہ کا سورج ہو۔2022 سے نئی اُمنگیں نئی کرن نئی شعاع نئی آرزو نئی بہار نئی صبح نئی خوشیاں نئے پھول کھلنے کی امیدوار ہوں۔
•ہوتا نہیں ہےختم قتیل آس کا سفر
پاؤں کٹے ہوئے ہیں مگر چل رہے لوگ