زہن پر مناسب سا زور دیا جائے تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ہمارے کرپٹ ترین حکمرانوں کی نا اہلیوں، منافقت اور دوغلے پن کی وجہ سے سامراجی قوتیں ہمارے پاک وطن پر غلبہ حاصل کرنے کی کوشش کر رہی ہیں؟ اور اس میں وہ کس حد تک کامیاب ہو چکی ہیں موجودہ حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے اس تحریر میں اس کا احاطہ کرنے کی کوشش کی گئی ہے غور سے پڑھ کر سمجھنے کی کوشش ضرور کریں آپ کے متفق یا غیر متفق ہونے کا فیصلہ آپ نے خود کرنا ہے۔
ایک ملک کی سرحدوں سے باہر جا کے دوسرے ملک کے اختیارات پر دخل اندازی کرنے کے عمل کو سامراجیت کہا جاتا ہے۔ یہ دخل اندازی جغرافیائی، سیاسی یا اقتصادی طور پر ہو سکتی ہے۔ کسی ملک یا کسی خطّے کو اپنے سیاسی یا مالیاتی اختیار میں لا کے وہاں کے باشندوں کو مختلف حقوق سے محروم کرنا اِس نظام کی سب سے ظاہری صورت ہے۔نوآبادیات کے ذریعہ اپنے سامراج کو وسعت دینے والا یہ نظام، نامناسب اقتصادی، تہذیبی اور جغرافیائی مسائل پیدا کرتا ہے۔قدیم چینی سامراج اور سکندر کے یونانی سامراج سے جدید امریکی سامراجیت تک اس کی بے شمار مثالیں ہیں۔ انیسویں صدی کے نصفِ اوّل سے بیسویں صدی کے نصفِ اوّل تک کا زمانہ زمان? سامراجیت کے نام سے معروف ہے۔ برطانیہ، فرانس، اطالیہ، جاپان، امریکہ وغیرہ جیسے ممالک نے اس زمانے میں عالمی پیمانے پر نوآبادیات قائم کیں۔
اردو کے نظریہ دان،ادبی اور ثقافتی نقاد محقق اور ماہر عمرانیات احمد سہیل لکھتے ہیں ””سامراج”۔۔ کی اصطلاح دوسری جنگ عظیم کے بعد ” نو آبادیات” کے نام سے جانی گئی۔ نوآبادیات ایک ایسا سفاک اور استبدادی رویہ ہوتا ہے۔ جس میں ایک طاقت ور ملک چھوٹے اور کمزور علاقوں پر اپنا تسلط قائم کرتا ہے اور ان کا سیاسی، معاشرتی، ثقافتی اقتصادی استحصال کیا جاتا ہے۔ اور طاقتور ادارہ جاتی قوت اور سازشوں سے مقامی اداروں اور ثقافت کو تباہ وبرباد کرتے ہیں۔ یہ مقامی زیر تسلط خطے کو ” سونے کی چڑیا” تصور کرتے ہیں۔ کسی ملک یا کسی خطّے کو اپنے سیاسی اختیار میں لاکے وہاں کے باشندوں کو مختلف حقوق سے محروم کرنا، اِس نظام کی سب سے ظاہری صورت ہے۔ نوآبادیات کے ذریعہ اپنے سامراج کو وسعت دینے والا یہ نظام، نامناسب اقتصادی، سماجی، تہذیبی اور جغرافیائی مسائل پیدا کرتا ہے۔
اس بات کو سمجھنے کیلئے کسی راکٹ سائنس کا علم حاصل کرنا ضروری نہیں صرف اپنے حواس خمسہ اور اللہ کریم کے عطا کردہ ذہن پر تھوڑا سا زور دینے کی ضرورت ہے مثال کے طور پر آئی ایم ایف جو کڑی شرائط عائد کر کے مقروض ممالک پر جو عنائیات کر رہا ہے اور ہر قسط سے پہلے اپنی من مرضی کی شرائط منوا کر ملکی وسائل سمیت ملکی اداروں کی سیکریسی اپنے ہاتھ میں لینے کی کوشش کر رہا ہے جس میں وہ کافی حد تک کامیاب بھی ہو چکا ہے یہ ادارہ کہیں ان سامراجی سوچ رکھنے والی قوتوں کے ڈبل ایجنٹ یا آلہ کار کے طور پر تو کام نہیں کر رہا جو قوتیں کرپٹ حکمرانوں کو سہولیات فراہم کر کے لئے گئے قرضوں سے سود سمیت بلکہ کئی گنا زیادہ رقم اپنے ممالک میں منتقل کروا رہے ہیں اور ملکی اثاثے گروی رکھوا کر اللہ کریم کے عطا کردہ قدرتی وسائل جو ہم اپنے کرپٹ اور منافق حکمرانوں کی وجہ سے استعمال میں لانے کیلئے کامیاب نہیں ہو سکے ان پر قبضہ تو نہیں کرنا چاہتے بادی النظر میں تو یہی کچھ نظر آ رہا ہے۔
اللہ کریم سے دعا ہے کہ اپنی عطا کردہ اس مملکت کی حفاظت فرمائے جس کو حاصل کرنے کیلئے لاکھوں شہیدوں نے اس کی بنیادوں میں اپنا خون شامل کیا امید ہے اللہ کریم ضرور حفاظت فرمائے گا اور اس وطن کے خلاف شیطانی سوچ رکھنے والے اندرونی اور بیرونی دشمنوں کو ناکام ہی نہیں بلکہ ذلیل وخوار کرے گا۔ اللہ کریم اپنے پیارے حبیب کے صدقے ہماری غلطیوں اور گناہوں کو معاف فرما کر ہمارے پاک وطن اور کے باسیوں کو اپنے حفظ و امان میں رکھے۔ آمین۔