حالیہ دنوں لاہور شہر میں اسموگ نے ماحولیاتی تحفظ کی اہمیت کو ایک مرتبہ پھر اجاگر کیا ہے اور پالیسی سازوں کو باور کروایا ہے کہ اگر بروقت اسموگ کے مسئلے پر قابو نہ پایا گیا تو شہریوں کے لیے سانس لینا بھی دوبھر ہو جائے گا۔اسموگ ٹھہری ہوئی ہوا کی ایک گھنی تہہ ہے جو زمین کی سطح کے قریب اس وقت بنتی ہے جب فضائی آلودگی زیادہ ہوتی ہے۔ اسموگ زیادہ ٹریفک والے شہروں یا زیادہ اخراج والی صنعتوں کے قریبی علاقوں میں عام ہے اور اسمیں ایسے نقصان دہ مادے ہوتے ہیں، جیسے سلفر ڈائی آکسائیڈ، نائٹروجن ڈائی آکسائیڈ، کاربن مونو آکسائیڈ اور چھوٹے مالیکیول جو انسانی پھیپھڑوں میں گہرائی تک پہنچ سکتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اسموگ سے گلے، ناک، آنکھوں یا پھیپھڑوں میں جلن ہوسکتی ہے اور سانس لینا دشوار ہوسکتا ہے۔
اسی طرح فضائی آلودگی اور اسموگ کی نمایاں سطح الرجی کے امکانات کو بھی بڑھا سکتی ہے۔ دمہ کے حالات اسموگ کی وجہ سے بری طرح بگڑ سکتے ہیں اور یہ دمہ کے دورے کا باعث بن سکتے ہیں۔برونکائٹس، نمونیا اور پھیپھڑوں کی کچھ ایسی حالتیں ہیں جو اسموگ کے اثرات سے منسلک ہوتی ہیں کیونکہ یہ پھیپھڑوں کی پرت کو نقصان پہنچاتی ہے۔ ڈبلیو ایچ او کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ اسموگ کا مجموعی طور پر سامنا کرنا کینسر اور سانس کی بیماریوں سے قبل از وقت موت کے امکانات کو بڑھا دیتی ہے۔امریکہ، یورپ اور ایشیائی ممالک میں ہزاروں قبل از وقت اموات کا تعلق اسموگ کے ذرات کے سانس لینے سے ہے ۔اسموگ کا تعلق پیدائشی نقائص اور کم پیدائشی وزن سے بھی ہے۔ حاملہ خواتین جو اسموگ کا شکار رہی ہیں اُن کے ہاں بچے پیدائشی نقائص کے ساتھ پیدا ہوئے ہیں۔
یہ تو بات ہو گئی اسموگ کے باعث سامنے آنے والے مسائل کی اور اب اصل سوال یہ ہے کہ اسموگ سے کیسے نمٹا جائے۔اپنے زاتی تجربے کی روشنی میں چین کی جانب سے متعارف کروائے جانے والے چند ایسے اقدامات کا زکر کرنا چاہوں گا جو اسموگ کی روک تھام اور ماحولیات کے تحفظ کے حوالے سےانتہائی اہم ہیں۔چین میں تقریباً چھ سالہ قیام کے دوران سال 2015 تا 2016میں چین کے دارالحکومت بیجنگ میں بھی ایسی ہی صورتحال دیکھنے کو ملی تھی مگر داد دینی چاہیے چینی قیادت کو کہ جس نے ایسی ماحول دوست پالیسیاں اپنائیں جس کی وجہ سے آج بیجنگ میں نیلا شفاف آسمان ایک معمول ہے۔ماضی میں نیلا آسمان شہریوں کی ایک خواہش ہوا کرتا تھا جسے اب عملی تعبیر مل چکی ہے۔
اصل سوال یہ ہے کہ چین کیا ایسے اقدامات اپنا رہا ہے جن کی وجہ سے نہ صرف اسموگ بلکہ موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنے میں نمایاں کامیابیاں ملی ہیں۔پہلی بات چین نے دارالحکومت سے فیکٹریوں اور زیادہ اخراج والی صنعتوں کو شہر سے باہر منتقل کیا جس کی وجہ سے آلودگی میں نمایاں کمی آئی ۔ دوسرا ،سڑکوں پر دھواں چھوڑتی گاڑیوں کی حوصلہ شکنی کی گئی اور ساتھ ساتھ نئی شفاف توانائی سے چلنے والی گاڑیوں کی حوصلہ افزائی کی گئی۔یہی وجہ ہے کہ آج بیجنگ کی سڑکوں پر برقی گاڑیاں ہی آپ کو رواں دواں نظر آئیں گی۔اس ضمن میں چین بلا شبہ دنیا کے لیے ایک بہترین مثال ہے۔
تیسرا ،شہر بھر میں کوڑا کرکٹ کی تقسیم کو یقینی بنایا گیا اور شہریوں کی حوصلہ افزائی کی گئی کہ وہ ری سائیکل اور نان ری سائیکل اشیاء میں تمیز کریں تاکہ کوڑا کرکٹ کے بہتر انتظام کو یقینی بنایا جا سکے۔چوتھا ،شہریوں کے انفرادی رویے بھی بیجنگ شہر سے آلودگی بالخصوص فضائی آلودگی کے خاتمے کی کلید ہیں۔آج سے چھ سال قبل جب بیجنگ میں نئے نئے آئے تو پہلی مرتبہ چین کا روایتی تہوار جشن بہار منانے کا موقع ملا ۔اُس وقت بیجنگ میں اس قدر آتش بازی کی جاتی تھی کہ کئی روز تک اس کے اثرات فضا میں محسوس کیے جا سکتے تھے۔بچے ،بڑے ،بوڑھے، مرد و خواتین سبھی انتہائی شوق سے آتش بازی کیا کرتے تھے اور اسے جشن بہار کی ایک لازمی سرگرمی سمجھا جاتا تھا ۔ لیکن بعد میں جب حکومت نے ٹھان لی کہ شہر کی فضا کو شفاف بنایا جائے گا تو اس میں آتش بازی پر پابندی بھی شامل تھی۔یقین مانیے کہ چینی شہریوں نے اپنی حکومت کا بھرپور ساتھ دیا اور آتش بازی جیسی اپنی پسندیدہ سرگرمی سے اجتناب کیا۔یہی وہ رویے ہیں جن کی بدولت چین آج ماحولیاتی تحفظ کا قائد سمجھا جاتا ہے۔
دوسری جانب چین نے ملکی سطح پر کوئلے کے استعمال میں بتدریج کمی کو اپنایا ہے۔چین نے ابھی حال ہی میں یہ اعلان بھی کیا کہ وہ بیرون ملک کوئلے سے چلنے والے بجلی گھر نہیں تعمیر کرے گا۔ شمسی توانائی جیسی قابل تجدید توانائی میں چین کی بے پناہ سرمایہ کاری نے ٹیکنالوجی کی مہارت میں نمایاں اضافہ کیا اور عالمی سطح پر بھی اس کی طلب بڑھی ہے۔حقائق کے تناظر میں اگر قابل تجدید توانائی کے شعبے میں چین کی وسیع اور فراخدلانہ سرمایہ کاری نہ ہوتی تو دنیا قابل تجدید توانائی تک وسیع اور سستی رسائی تیزی سے حاصل نہ کرتی۔
چینی حکومت کی بروقت ،دوراندیش اور دانشمندانہ پالیسیوں کی بدولت آج چین نہ صرف خود قابل تجدید توانائی میں سرفہرست ہے بلکہ اپنی شمسی ٹیکنالوجی ، کامیاب تجربات اور ماحولیاتی تحفظ کی موئثر پالیسیوں کا باقی دنیا کے ساتھ تبادلہ بھی کر رہا ہے۔ساتھ ساتھ چین نے 2030 تک کاربن پیک اور 2060 تک کاربن نیو ٹرل کے حصول کا اعلان کیا ہے۔ اس مقصد کی خاطر ملک میں صنعت ، ٹرانسپوٹ ، نقل وحمل اور شہری و دیہی تعمیر سمیت مختلف شعبہ جات میں سائنس و ٹیکنالوجی کی مدد سے کاربن پیک اور کاربن نیوٹرل کے عملی منصوبے ترتیب دیے جا چکے ہیں ۔
اس ضمن میں اہم شعبوں میں توانائی کی بقا اور تخفیف کاربن پر زور دیا جائے گا، زیادہ توانائی استعمال کرنے والے شعبوں کی ترتیب نو کی جائے گی۔ علاوہ ازیں توانائی کی صلاحیت میں بہتری اور کاربن اخراج میں کمی پر زور دیا جائے گا۔یوں چین نے دنیا میں فطرت اور مادی ترقی کے درمیان ہم آہنگی کا ایک عمدہ ماڈل ترتیب دیا ہے جو نہ صرف قابل ستائش ہے بلکہ قابل تقلید بھی ہے۔پاکستان بھی چین سے سیکھتے ہوئے ایسی ماحول دوست پالیسیاں ضرور اپنا سکتا ہے جس سے نہ صرف اسموگ بلکہ ماحولیات کے حوالے سے درپیش دیگر مسائل سے چھٹکارہ ممکن ہے۔