اقوام متحدہ کے زیر اہتمام ہر سال دس دسمبر کا دن انسانی حقوق کے عالمی دن کے طور پر منایا جاتا ہے۔ ہم برس ہا برس سے انسانی حقوق کا عالمی دن منارہے ہیں لیکن اس کے باوجود نامعلوم کیا مجبوریاں ہیں کہ مقبوضہ کشمیر سے انسانی حقوق کی بدترین خلاف ورزیوں، اور ترقی یافتہ ممالک سے آزادی کے نام پر خواتین کی عصمت کی پامالی کا سلسلہ نہ رک سکا۔ آج بھی ترقی یافتہ ، اور انسانی حقوق کے تحفظ کے سب سے بڑے علمبردار ملک امریکہ میں انسانی حقوق کے معاملے میں پستی کا یہ عالم ہے کہ کالوں کے بچوں کے علیحدہ اسکول ، علیحدہ بسیں، ہسپتال، ہوٹل، کلب، اور آبادیاں تک علیحدہ ہیں ۔
امریکہ ہی کیا مغربی یورپ کے کسی بھی ملک میں کالی رنگت والوں کے ساتھ امتیازی سلوک روا رکھا جاتا ہے۔ پڑوسی ملک بھارت جو کہ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کے ساتھ سیکولر ہونے کا بھی دعویدار ہے، وہاں ذات پات کے نام پر انسانوں پر ظلم و جبر صدیوں سے جاری ہے۔ جو اعلیٰ ذات کے گھرانے میں پیدا ہو گیا وہ چھوٹی ذات والوں پر ہر طرح ظلم رواء رکھ سکتا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے ہم غور کریں کہ کیااس سال بھی انسانی حقوق کے عالمی دن پر محض تقاریر ہوں گی ، پر جوش نعرے لگیں گے، اجتماعات منعقد ہوں گے، ریلیاں نکالی جائیں گی، دورجاہلیت کا موازنہ و مقابلہ دور جدیدکے ساتھ کیا جائے گا، لیکن ہو گا وہی کچھ جو کچھ پہلے ہوتا رہا ہے…؟سال کے تین سو پینسٹھ دنوں میں سے محض ایک دن انسانی حقوق کے لئے مناکر باقی تین سو چونسٹھ دن انسانی حقوق کی پامالی…!
دوسری عالمی جنگ کی بدترین تباہ کاریوں اور اس میں بڑے پیمانے پر انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے پیش نظرلیگ آف نیشن کو ختم کرکے اقوام متحدہ کا قیام عمل میں آیا،اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کے چارٹر اور قرارداد کی رو سے دنیا بھر کے انسانوں کو ہر طرح کے حقوق جن میں جینے کا حق، امتیازسے پاک مساوات یا برابری کا حق، اظہار رائے کی آزادی، معاشی، سماجی اور ثقافتی حقوق جن میں روزگار، سماجی تحفظ، تعلیم، صحت، ترقی اور حق خودارادیت اور دیگر حقوق شامل ہیں۔ اقوام متحدہ کے رکن ممالک اور انسانی حقوق کے چارٹر پر دستخط کرنے والے ممالک پر یہ لازم ہے کہ وہ اپنے شہریوں کو یہ تمام حقوق نہ صرف فراہم کریں بلکہ انہیں مقدم جانیں۔لیکن اس کے باوجود آج دنیا کے بیش تر ممالک میں کہیں رنگ و نسل کے نام پر ، کہیں ذات پات کے نام پر ، تو کہیں مذہب کے نام پر انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں ، اور انسانی حقوق کی پامالی کا سلسلہ جاری ہے۔جبکہ اپنے قانون پر عمل درآمد کروانے میں اقوام متحدہ کا کردار انتہائی کمزور ہے۔
جبکہ سترویں صدی سے پہلے اہل مغرب میں حقوق انسانی اور حقوق شہریت کا کوئی تصور موجود نہ تھا۔ سترویں صدی کے بعد بھی ایک مدت تک فلسفیوں اور قانونی افکار پیش کرنے والے لوگوں نے تو ضرور اس خیال کو پیش کیا تھا۔ لیکن عملاً اس تصور کا ثبوت اٹھارہویں صدی کے آخر میں امریکہ اور فرانس کے دستوروں اور اعلانات ہی میں ملتا ہے۔ جبکہ بادشاہوں اور قانون ساز اداروں کے دیے ہوئے حقوق جس طرح دیے جاتے ہیں، اسی طرح جب وہ چاہیں واپس بھی لئے جا سکتے ہیں، لیکن اسلام میں یہ حقوق اللہ تعالیٰ کی طرف سے دیے گئے ہیں۔ انسانی حقو ق کے بارے میں اسلام کا تصور بنیادی طور پر بنی نوع انسان کے احترام اور باہمی مساوات پر مبنی ہے ۔
اللہ ربّ العزت نے نوع انسانی کو دیگر تمام مخلوق پر فضیلت و تکریم عطا کی ہے۔ اسلام نے تمام نوع انسانی میں رنگ و نسل، زبان اور قومیت کی بناہ پر سارے امتیازات کی جڑ کاٹ دی۔ اسلام کے نزدیک یہ حق انسان کو انسان ہونے کی حیثیت سے حاصل ہے کہ اس کے ساتھ اس کے رنگ یا اس کی پیدائش کی جگہ یا اس کو جنم دینے والی نسل و قوم کی بنا پر کوئی امتیاز نہ برتا جائے۔ اسے دوسروں کی بہ نسبت حقیر نہ ٹھہرایا جائے، اور اس کے حقوق دوسروں سے کمتر نہ رکھے جائیں۔ دنیا کی کوئی مجلس قانون ساز ادارہ اور دنیا کی کوئی حکومت ان احکامات الٰہی کے اندر رد و بدل کرنے کی مجاز نہیں ۔ ان کو واپس لینے یا منسوخ کر دینے کا حق کسی کو حاصل نہیں ہے۔ دین حق اسلام انسان کو اس بات کا پابندبناتا ہے کہ کسی کا ناحق قتل نہ کیا جائے ، بے حیائی نہ پھیلائی جائے، کسی کی دل آزاری نہ کی جائے، کسی کا مذاق نہ اڑایا جائے، کسی کی عزت و آبرو سے نہ کھیلا جائے اور ملک و ریاست کو خطرے میں نہ ڈالا جائے اور اس کے خلاف سازش نہ کی جائے۔ فلاح انسانی پر مبنی ان شرائط کے ساتھ تمام انسانوں کو اظہار رائے کی مکمل آزادی ہے۔