پریانتھا کمارا سری لنکن شہری تھاجو 2010میں پاکستان آیافیصل آباد اور لاہورکی گارمنٹس فیکٹریوں میں کام کرتا رہا جواب مسلسل ۹ سال سے سیالکوٹ میں راجکو فیکٹری میں General Manager(GM) کے فرائض سرانجام دے رہا تھا وہ اصولوں کا پکا اور ایماندار اور وقت کا پابندشخص تھا۔
وہ اپنے ماتحت کام کرنے والے ملازمین کو بھی وقت کی پابندی کی تلقین کرتا رہتا تھا کام پر زیادہ دیر سے آنے کی وجہ سے وقت کے حساب سے ملازمین کی تنخواہ میں کٹوتی بھی کرتا تھا یہی چند خاص وجوہات تھیں جس بناپرمالک اسے پسند کرتے تھے اور ورکرز اسے ناپسند کرتے تھے دیر سے آناحیلے بہانوں سے وقت ضائع کرنا اور وقت سے پہلے گھر کے لیے نکلنا تو کوئی ہم پاکستانیوں سے سیکھے جس کا بہترین حل جمعہ اور نماز کے اوقات تھے پریانتھا نماز اور جمعہ کے اوقات کی مخصوص وقت کی بریک دیتا تھا۔
مگر ہمارا مسئلہ نماز اور جمعہ نہیں بلکہ فرقہ تھا ہر فرد اپنے فرقے کی مسجد میں نماز اور جمعہ پڑھنا چاہتاتھا مختلف اوقات ہونے کی بنا پر زیادہ وقت استعمال ہوتا تھا جو کہ غیر مناسب بات تھی مگر پریانتھا چونکہ غیر مسلم تھا اس لیے ہمیں اپنی اجتماعی غلطی بھی اس کی اسلام سے نفرت محسوس ہوتی تھی.3دسمبربروز جمعہ کو ہوا کچھ یوں کہ فیکٹری میں معمول کے مطابق کام چل رہاتھا پریانتھا کی ٹیبل یا دیوار پر کوئی کاغذ کا ٹکڑا پڑا تھا فیکٹری ملازمین کے بقول اس کاغذ پر ”یاحسین،حضور ﷺ کانام یا وضیفے کے لیے درود پڑھنے کی تلقین میں سے کوئی ایک چیزلکھی تھی” اس کاغذ پر جوکچھ بھی لکھا تھا مگر وہ نہیں جانتا تھا کہ کیا لکھا ہے کیونکہ اس کو اردو بھی اچھے سے نہیں آتی تھی۔
ملازمت کے لیے آنے والے لوگوں کا انٹرویوبھی وہ ترجمان کے ذریعے لیتا تھا جبکہ ہمارے مقدس نام اور کلام تو عربی زبان میں ہیں اب یہاں آپ خود اندازہ کریں کہ جس شخص کو اردوزبان بھی نہیں آتی وہ عربی میں لکھی عبارت کی کتنی سمجھ بوجھ رکھتا ہوگا؟ اس نے وہ کاغذ کا ٹکڑ ا وہاں پڑی باسکٹ میں پھینک دیا جسے وہاں موجود لوگ دیکھ رہے تھے لہذا انھوں نے اسے سمجھانے کی بجائے کام چھوڑ کر شور مچانا شروع کردیا کہ اس نے توہین کی ہے یہ بات فیکٹری ورکرز میں جنگل میں آگ کی طرح پھیل گئی۔دوسرے یونٹس میں موجودآ فیسر اور ملازمین ابھی یہ معلوم کر نے کی کوشش میں تھے کہ کیا اورکیسے گستاخی کی ہے؟۔
اسی اثنا میں پریانتھا کے ماتحت کام کرنے والے ورکرز نے باہر روڑ بلاک کردیا یوں یہ گستاخی کا الزام فیکٹری حدود سے نکل کر باہر کے لوگوں تک پہنچ گیا فیکٹری مالکان سمجھ چکے تھے کہ بات اب ہمارے کنٹرول میں نہیں رہی۔انھوں نے پریانتھا کو فیکٹری میں کہیں چھپا کر دوسرے دروازے سے نکالنے کی کوشش شروع کردی اور خود مشتعل ہجوم کو اپنی علمی استطاعت کے مطابق ایسے موقع پر حضور ﷺکا طرز عمل بتانے کی کوشش کی جس میں اسلام کی دعوت پھیلانے کے لیے حضورﷺ کا طائف کی وادی میں پتھروں سے لہولہان ہونا اور ظالموں کو نشان عبرت بنانے کی فرشتوں کی آفر کے باوجود حضورﷺکا معاف کرکے ہدایت کی دعا دینے جیسے تمام قصے سنائے اورملازمین کی منت سماجت شروع کردی۔
مگر ہجوم کے سر پر اپنی اناکی تسکین کو ٹھنڈا کرنے کے لیے جنون سوار تھا اسی دوران پولیس کے چند جوان موقع پر پہنچ چکے تھے۔جوممکن حد تک حالات کو کنٹرول کرنے کی کوشش کررہے تھے مگر اسی لمحے کچھ مشتعل لوگ اس کے کمرے کا تالا توڑ کر اس کو”جہنم واصل اور خود جنت کے ٹکٹ” کٹوا چکے تھے پولیس اور مالکان کو اس کی ہلاکت کا تب علم ہوا جب اس کی لاش کو گھسیٹ کر ان کے سامنے بیچ چوراہے میں لٹکانے کی کوشش کی گئی جس کو چند لوگوں نے آگے بڑھ کر روکنے کی کوشش کی مگر مشتعل ہجوم کی جانب سے ان کو بھی جان سے مارنے کی دھمکی دی گئی۔
لہذا سبھی نے خاموشی میں ہی عافیت سمجھی جب لٹکانے کے لیے کوئی موضع جگہ نہ ملی تو پھر ہر کسی نے حسب استطاعت اپنی قمیض،رومال،جیکٹ،شوز اور نوٹوں کا ہدیہ پیش کرکے آگ جلانے میں حصہ ڈالا۔یہ ہے ہمارے معاشرے کا عدم برداشت کا وہ بھیانک چہرہ جس میں آج کوئی اور کل ہم جل رہے ہوں گے اگر ہم غیر جانبداری سے پریانتھا قتل کیس کو ٹیسٹ کیس بنادیں صرف چند مجرموں کو لٹکا دینے کی بجائے ان محرکات پر غور کریں کہ آخر ہم نے گستاخی کا الزام لگانا اور پھر خود ہی منصف بن کرسزا کا فیصلہ کرنا کہاں سے سیکھا،یہ عدم برداشت کا کلچر کیسے پروان چڑھا،حرمت رسولﷺ کے نام پر سیاست کرنے والوں کو اپنے گریبان میں جھانکنا چاہیے کہ ہم اپنے پیروکاروں کو کیاتعلیمات دے رہے ہیں؟۔
عدالتوں کو اپنا محاسبہ کرنا چاہیے کہ عوام کیوں ان پراعتماد کرنے کو تیار نہیں؟علماء اکرام کو اس پر غور کرنا چاہیے ہم کیسی درس و تدریس کرتے ہیں کہ اسلام پیچھے راہ گیا اور ہم اسلام سے آگے نکل گئے چکے ہیں ہمارے بتائے ہوئے اسلام کے مطابق زندگی گزارنے کوکوئی تیار نہیں مگر مرنے کے لیے پورا جہاں تیار کھڑا ہے؟اب ہم کس منہ سے اس کی بوڑھی والدہ اور کم سن بچے کو یہ سمجھا پائیں گے کہ اسلام سلامتی کا مذہب ہے اور امن کا درس دیتا ہے؟